مشکوٰۃ المصابیح - سود کا بیان - حدیث نمبر 2865
وعن فضالة بن أبي عبيد قال : اشتريت يوم خيبر قلادة باثني عشر دينارا فيها ذهب وخرز ففصلتها فوجدت فيها أكثر من اثني عشر دينارا فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه و سلم فقال : لا تباع حتى تفصل . رواه مسلم
سونے کی خرید وفروخت کا مسئلہ
حضرت فضالہ بن عبید کہتے ہیں کہ میں نے خیبر کے سال ایک ہار بارہ دینار میں خریدا جو سونے کا تھا اور اس میں نگینے جڑے ہوئے تھے پھر جب میں نے انہیں الگ الگ کیا (یعنی نگینوں کو سونے سے نکال ڈالا) تو وہ سونا بارہ دینار سے زائد قیمت کا نکلا میں نے اس کا ذکر رسول کریم ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایسا ہار اس وقت تک فروخت نہ کیا جائے تاوقتیکہ سونا اور نگینہ الگ الگ نہ کر لئے جائیں ( مسلم)

تشریح
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر مال ربا میں سے دو ایسی ہم جنس چیزوں کا ایک دوسرے کے عوض لین دین کیا جائے کہ ان میں سے ایک طرف کی چیز میں کوئی اور غیر جنس کی چیز بھی شامل ہو تو یہ جائز نہیں ہے چناچہ اگر کوئی شخص مثلا سونے کا جڑاؤ زیور سونے کے عوض میں خریدو فروخت کرے خواہ وہ اشرفیوں کی صورت میں ہو یا کسی اور شکل میں تو لازم ہے کہ پہلے اس زیور میں سے نگینے وغیرہ الگ کر دئے جائیں اور پھر اس زیور کا خالص سونا دوسری طرف کے سونے کے برابر سرابر وزن کے ساتھ لیا دیا جائے یہی حکم چاندی کے بارے میں بھی ہے کہ اگر چاندی کا کوئی ایسا زیور وغیرہ کہ جس میں کوئی اور غیر جنس چیز مخلوط ہو چاندی ہی کے بدلے میں خواہ وہ روپے کی صورت میں ہو یا کسی اور شکل میں خریدو فروخت کیا جائے تو ضروری ہے کہ اس زیور وغیرہ کی چاندی کو الگ کر کے دوسری طرف کی چاندی کے برابر سرابر وزن کے ساتھ خریدا جائے یا فروخت کیا جائے اور یہ حکم اس لئے ہے تاکہ ہم جنس چیزوں کا کمی بیشی کے ساتھ باہمی لین دین ہونے کی وجہ سے سود کی صورت پیدا نہ ہوجائے ہاں اگر سونے کا جڑاؤ زیور وغیرہ چاندی کے بدلے میں خریدو فروخت کیا جائے خواہ وہ چاندی روپے کی صورت میں ہو یا کسی اور شکل میں یا اس کا برعکس ہو کہ چاندی کا جڑاؤ زیور سونے کے بدلے میں خریدو فروخت کیا جائے خواہ وہ سونا اشرفی وغیرہ کی صورت میں ہو یا کسی اور شکل میں تو اس صورت میں اس جڑاؤ زیور سے نگینے وغیرہ اکھاڑ کر الگ کردینا ضروری نہیں ہے کیونکہ مختلف الجنس چیزوں کا باہمی لین دین کمی بیشی کے ساتھ بھی جائز ہے اس میں کمی زیادتی سے سود کی صورت پیدا نہیں ہوتی
Top