مشکوٰۃ المصابیح - جن بیوع سے منع کیا گیا ہے ان کا بیان - حدیث نمبر 2883
عن ابن عمر قال : نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن المزابنة : أن يبيع تمر حائطه إن كان نخلا بتمر كيلا وإن كان كرما أن يبيعه زبيب كيلا أو كان وعند مسلم وإن كان زرعا أن يبيعه بكيل طعام نهى عن ذلك كله . متفق عليه . وفي رواية لهما : نهى عن المزابنة قال : والمزابنة : أن يباع ما في رؤوس النخل بتمر بكيل مسمى إن زاد فعلي وإن نقص فعلي ) 2835 - [ 2 ] ( صحيح ) وعن جابر قال : نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن المخابرة والمحاقلة والمزابنة والمحاقلة : أن يبيع الرجل الزرع بمائة فرق حنطة والمزابنة : أن يبيع التمر في رؤوس النخل بمائة فرق والمخابرة : كراء الأرض بالثلث والربع . رواه مسلم 2836 - [ 3 ] ( صحيح ) وعنه قال : نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن المحاقلة والمزابنة والمخابرة والمعاومة وعن الثنيا ورخص في العرايا . رواه مسلم 2837 - [ 4 ] ( متفق عليه ) وعن سهل بن أبي حثمة قال : نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن بيع التمر بالتمر إلا أنه رخص في العرية أن تباع بخرصها تمرا يأكلها أهلها رطبا 2838 - [ 5 ] ( متفق عليه ) وعن أبي هريرة : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم أرخص في بيع العرايا بخرصها من التمر فيما دون خمسة أوسق أو خمسة أوسق شك داود ابن الحصين 2839 - [ 6 ] ( متفق عليه ) وعن عبد الله بن عمر : نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن بيع الثمار حتى يبدو صلاحها نهى البائع والمشتري . متفق عليه وفي رواية لمسلم : نهى عن بيع النخل حتى تزهو وعن السنبل حتى يبيض ويأمن العاهة 2840 - [ 7 ] ( متفق عليه ) وعن أنس قال : نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن بيع الثمار حتى تزهي قيل : وما تزهي ؟ قال : حتى تخمر وقال : أرأيت إذا منع الله الثمرة بم يأخذ أحدكم مال أخيه ؟
وہ بیوع جن سے منع کیا گیا ہے
حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مزابنہ سے منع فرمایا ہے اور مزابنہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے باغ کا میوہ تازہ پھل اگر وہ کھجور ہو تو خشک کھجوروں کے بدلے پیمانہ کے ذریعہ مثلا دس پیمانے کے بقدر بیچے یعنی ایک شخص کے باغ میں تازہ کھجوریں لگی ہوئی ہوں اور ایک دوسرے شخص کے پاس خشک کھجوریں رکھی ہوئی ہوں تو باغ والا شخص اس دوسرے شخص سے دس پیمانے بھر کر خشک کھجوریں لے لے اور اس کے عوض اپنے درخت پر لگی ہوئی تازہ کھجوریں اسی پیمانے کے مطابق اندازہ کر کے بیچ دے اور اگر میوہ انگور ہو تو اس کو خشک انگور کے بدلے پیمانہ کے ذریعہ بیچے ( حاصل یہ کہ بیع مزابنہ کا مطلب ہے درخت پر لگے ہوئے تازہ میوہ کو خواہ وہ کھجور ہو یا کوئی اور پھل رکھے ہوئے خشک میوہ کے عوض بیچنا اور مسلم میں یہ بھی ہے کہ اگر کھیتی ہو تو اس میں بیع مزابنہ کی شکل یہ ہے کہ اس کو غلہ کے عوض پیمانہ کے ذریعہ بیچے یعنی کھیت میں کھڑی ہے اور ایک دوسرے شخص کے پاس گیہوں رکھا ہوا ہے تو پہلا شخص اپنے کھیت میں کھڑے ہوئے گیہوں کا اندازہ کر کے اس کو دوسرے شخص کے ہاتھ بیچے اور اس کے عوض اس شخص سے وہ رکھا ہوا گیہوں اپنے اندازے کے مطابق پیمانہ بھر کے لے لے آنحضرت ﷺ نے بیع کی ان تمام قسموں سے منع فرمایا ہے (بخاری ومسلم) اور بخاری ومسلم ہی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا ہے نیز فرمایا کہ بیع مزابنہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے درخت پر لگی ہوئی تازہ کھجوروں کو کسی شخص کو ہاتھ اس کے پاس رکھی ہوئی خشک کھجوروں کے عوض پیمانہ معین کرکے بیچے اور خریدار سے کہہ دے کہ اگر درخت کی کھجوریں معین پیمانہ سے زائد ہوں گی تو میری ہیں یعنی اسے لے لوں گا اور اگر کم نکلیں تو اس کا میں ذمہ دار ہوں کہ اس کمی کو میں پورا کروں گا۔

تشریح
مزابنہ لفظ زبن سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں دفع کرنا دور کرنا بیع مزابنہ سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ اس بیع کی بنیاد قیاس اور اندازے پر ہوتی ہے اس میں فریقین کے لئے زیادتی اور نقصان دونوں کا احتمال رہتا ہے اس کی وجہ سے دونوں یعنی بیچنے والے اور خریدار کے درمیان نزاع و فساد بھی پیدا ہوسکتا ہے اور آپس میں ایک دوسرے کے دفعیہ اور دوری کی نوبت بھی آسکتی ہے۔ یہاں دو روایتیں نقل کی گی ہیں ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی روایت میں مزابنہ کی تعریف لفظ ثمر کے ذکر سے کی گئی ہے جو عمومیت کے لئے ہوئے ہے۔ دوسری روایت میں مزابنہ کی تعریف لفظ تمر کے ذکر سے کی گئی ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیع مزابنہ کا تعلق صرف کھجور سے ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ دوسری روایت میں بھی عمومیت ہی مراد ہے خاص طور پر کھجور کا ذکر محض تمثیل ہے۔ حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ مخابرۃ محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے اور محاقلہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی کھیتی کو سو فرق گیہوں کے بدلے میں بیچ دے اور مزابنہ یہ ہے کہ کوئی شخص درختوں پر لگی ہوئی کھجوروں کو سو فرق رکھی ہوئی کھجوروں کے بدلے میں بیچ دے اور مخابرۃ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی زمین کو ایک معین حصہ جیسے تہائی یا چوتھائی پر کاشت کے لئے دیدے (مسلم) تشریح فرق راء کے زبر کے ساتھ ایک پیمانہ کا نام تھا جس میں سولہ رطل یعنی تقریبا سات سیر غلہ آتا تھا اور فرق راء کے جزم کے ساتھ اس پیمانے کو کہتے تھے جس میں ایک سو بیس رطل غلہ آتا تھا حدیث میں سو فرق کا ذکر محض تمثیل کے طور پر آیا ہے مقصود تو صرف یہ بتانا ہے کہ کٹنے سے پہلے کھیت میں کھڑے ہوئے گیہوں کو رکھے ہوئے گیہوں کے عوض بیچنا محاقلہ کہلاتا ہے۔ یہی مفہوم گذشتہ حدیث میں مزابنہ کے ضمن میں بھی ذکر کیا جا چکا ہے لیکن مزابنہ وسیع وعام کا حامل ہے کہ اس کا اطلاق میووں اور پھلوں پر بھی آتا ہے اور کھیتی اور غلوں کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ محاقلہ کا استعمال صرف کھیتی اور غلوں ہی کے لئے کیا جاتا ہے اگرچہ بعض مواقع پر مزابنہ بھی صرف میوؤں اور پھلوں ہی کے بارے میں استعمال ہوتا ہے۔ مخابرۃ کا مطلب ہے کہ اپنی زمین کو بٹائی پر کاشت کے لئے کسی دوسرے کو دیدینا مثلا کوئی شخص اپنی زمین کسی دوسرے کو اس شرط کے ساتھ دیدے کہ اس زمین کو جوتنا بونا اور جو کچھ اس میں پیدا ہو اس میں سے تہائی یا چوتھائی مجھے دیدینا۔ حدیث بالا میں اس کی بھی ممانعت فرمائی گئی ہے کیونکہ اول تو یہ اجرت کی ایک شکل ہوتی ہے اور اس میں اجرت مجہول رہتی ہے دوسرے حاصل ہونیوالی چیز معدوم ہوتی ہے اور جو چیز معدوم ہوتی ہے اس کا کوئی معاملہ مقرر نہیں ہوتا مخابرت کو مزارعت بھی کہتے ہیں لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ مخابرت کی صورت میں تو تخم وبیج کاشت کرنیوالے کا ہوتا ہے اور مزارعت میں زمین کے مالک کا ٫ مزارعت اور مخابرت بھی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک جائز نہیں ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں حکم ہے لیکن صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک درست ہے حنفی مسلک میں فتوی صاحبین ہی کے قول پر ہے کیونکہ یہ کثیر الوقوع اور بہت زیادہ احتیاج کی چیز ہے اس کو جائز نہ رکھنے کی صورت میں لوگوں کو بہت زیادہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے محاقلت مزابنت مخابرت معاومت اور ثنیا سے منع فرمایا ہے لیکن آپ ﷺ نے عرایا کی اجازت دی ہے (مسلم) تشریح محاقلت مزابنت اور مخابرت کے معنی تو بیان کئے جا چکے ہیں معاومت کے معنی یہ ہیں کہ درختوں کے پھلوں کو نمودار ہونے سے پہلے ایک سال دو سال تین سال یا زیادہ مدت کے لئے فروخت کردیا جائے اور ثنیا کا مطلب یہ ہے کہ درختوں پر موجود پھلوں کو بیچا جائے لیکن ان میں سے ایک غیر معین مقدار مستثنی کرلی جائے یعنی اسے نہ بیچا جائے۔ عرایا جمع ہے عریت کی اور عریت کھجور کے اس درخت کو کہتے ہیں جسے اس کا مالک کسی محتاج و فقیر کو پھل کھانے کے لئے عاریتًا دیدے عرایا کی اجازت دی ہے کی وضاحت یہ ہے کہ بعض لوگ اپنے باغ میں سے ایک درخت یا دو درخت کسی محتاج کو پھل کھانے کے لئے دیدیا کرتے تھے جیسا کہ معمول تھا وہ باغ کا مالک اپنے اہل و عیال کے ساتھ جب باغ میں آتا ہے اور ان سب لوگوں کی موجودگی میں وہ محتاج آجاتا تو اپنے باغ میں ایک شخص کے آجانے کی وجہ سے ان کو کچھ کبیدگی ہوتی اس لئے اس محتاج کو وہ اس درخت کی بجائے اپنے پاس سے کچھ پھل دے کر رخصت کردیتے اور اس درخت کا پھل خود رکھ لیتے چناچہ آپ ﷺ نے اس کو روا رکھا لیکن یہ پانچ وسق سے کم میں تو جائز ہے اس سے زیادہ میں درست نہیں جیسا کہ آگے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں آجائے گا۔ حضرت سہل ابن ابی حثمہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کو خشک کھجوروں کے بدلے بیچنے سے منع فرمایا ہے لیکن آپ ﷺ نے عریہ کسی محتاج کو دئیے گئے درخت کے متعلق یہ اجازت دی ہے کہ اس درخت پر لگے ہوئے پھل کو اس کے خشک ہونے کے بعد کی مقدار کا اندازہ کر کے بیچا جائے یعنی یہ اندازہ کرلیا جائے کہ اس درخت پر لگی ہوئی تازہ کھجوریں خشک ہونے کے بعد کتنی رہیں گی اور پھر اتنی ہی مقدار میں خشک کھجوریں اس محتاج کو دے کر اس درخت پر لگی ہوئی کھجوریں لے لی جائیں اس طرح اس کے مالک اس درخت کا تازہ پھل کھائیں ( بخاری ومسلم)
Top