مشکوٰۃ المصابیح - جن بیوع سے منع کیا گیا ہے ان کا بیان - حدیث نمبر 2891
وعن أبي سعيد الخدري قال : نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن لبستين وعن بيعتين : نهى عن الملامسة والمنابذة في البيع والملامسة : لمس الرجل ثوب الآخر بيده بالليل أو بالنهار ولا يقلبه إلا بذلك والمنابذة : أن ينبذ الرجل إلى الرجل بثوبه وينبذ الآخر ثوبه ويكون ذلك بيعهما عن غير نظر ولا تراض واللبستين : اشتمال الصماء والصماء : أن يجعل ثوبه على أحد عاتقيه فيبدو أحد شقيه ليس عليه ثوب واللبسة الأخرى : احتباؤه بثوبه وهو جالس ليس على فرجه منه شيء
بیع بلا صورت ومنابذت کی ممانعت
حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے دو طرح کے پہناوے سے اور دو طرح کی بیع سے منع کیا ہے وہ ملامست اور منابذت ہیں۔ ملامست یہ ہے کہ ایک شخص یعنی خریدار دوسرے شخص یعنی تاجر کے کپڑے کو جسے وہ لینا چاہتا ہے دن میں یا رات میں صرف ہاتھ سے چھو لے اسے کھول کر الٹ کر دیکھے نہیں اور اس کا یہ چھونا بیع کے لئے ہو اور منابذت یہ ہے کہ معاملہ کرنیوالوں میں سے ہر ایک اپنے کپڑے کو دوسرے کی طرف پھینک دے اور اس طرح بغیر دیکھے بھالے اور بغیر اظہار رضا مندی کے بیع ہوجائے اور جن دو طرح کے پہناوے سے منع فرمایا ہے ان میں سے ایک کپڑے کو (صماء) کے طور پر پہننا ہے اور (صماء) کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ایک مونڈھے پر اس طرح کپڑا ڈال لے کہ اس کی دوسری سمت کہ جس پر کپڑا نہ ہو ظاہر وبرہنہ رہے اور دوسرا پہناوا جس سے منع کیا گیا ہے یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے گرد اس طرح کپڑا لپیٹ لے کہ جب وہ بیٹھے تو اس کی شرم گاہ اس کپڑے سے بالکل عاری ہو (بخاری ومسلم)

تشریح
ملامست کا طریقہ یہ تھا کہ ایک شخص کوئی چیز مثلا کپڑا خریدنے جاتا تو کپڑے کو ہاتھ لگا دیتا کپڑے کو ہاتھ لگاتے ہی بیع ہوجاتی تھی نہ تو آپس میں قولی ایجاب و قبول ہوتا تھا کہ دکاندار تو یہ کہتا ہے کہ میں نے تمہارے ہاتھ یہ چیز بیچ دی اور خریدار یہ کہتا ہے کہ میں نے تم سے یہ چیز خرید لی اور نہ فعلی لین دین جسے اصطلاح فقہ میں تعاطی کہتے ہیں ہوتا تھا کہ دکاندار برضاء ورغبت خاموشی کے ساتھ وہ چیز دیتا اور خریدار اس کی قیمت ادا کردیتا بلکہ خریدار کا اس چیز کو ہاتھ سے چھو دینا ہی کافی سمجھا جاتا تھا۔ علامہ طیبی نے حدیث کے الفاظ (لا یقلبہ الا بذلک) ( اسے کھول الٹ کر دیکھے نہیں) کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ کپڑے کو علاوہ چھونے کے نہ الٹے نہ کھولے یعنی چاہئے تو یہ کہ کپڑے کو کھولا جائے اور اچھی طرح دیکھا بھالا جائے مگر بیع ملامست کرنیوالا نہ کھولتا تھا نہ اسے دیکھتا بھالتا تھا البتہ صرف اسے چھولیتا تھا ظاہر ہے کہ کسی چیز کو محض چھو لیا اس کو الٹ کھول کر دیکھنے بھالنے کا درجہ حاصل نہیں کرسکتا۔ بہرکیف ملامست ایام جاہلیت میں خرید فروخت کا ایک خاص طریقہ تھا کہ جہاں ایک نے دوسرے کے کپڑے کو ہاتھ لگایا بس بیع ہوگئی نہ وہ اس کو دیکھتے بھالتے تھے اور نہ شرط خیار کرتے تھے کہ اس کو دیکھنے کے بعد اگر چاہیں گے تو رکھ لیں گے انہیں تو واپس کردیں گے چونکہ یہ ایک بالکل غلط طریقہ تھا اس لئے آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا۔ منابذت کی صورت یہ ہوتی تھی کہ دونوں صاحب معاملہ نے جہاں آپس میں ایک دوسرے کی طرف کپڑا ڈالا بس بیع ہوگئی مبیع کو دیکھنے بھالنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے۔ یہ بھی ایام جاہلیت میں رائج بیع کا ایک طریقہ تھا لہذا اس کی ممانعت بھی فرمائی گئی۔ (صماء) کے ایک معنی تو وہی ہیں جو ترجمے میں ظاہر کئے گئے لیکن اس کا زیادہ واضح اور مشہور مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص ایک کپڑا لے کر اسے سر سے پاؤں تک اپنے بدن پر اس طرح لپیٹ لے کہ دونوں ہاتھ بھی اس کے اندر لپٹے رہیں اور جسم کہیں سے کھلا نہ رہے ظاہر ہے کہ اس طرح آدمی بالکل مفلوج وناکارہ ہو کر رہ جاتا ہے اس لئے آنحضرت ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ دوسرا پہناوا جس سے آپ ﷺ نے منع فرمایا ہے یہ ہے کہ کوئی شخص کو لہوں پر بیٹھ جائے اور دونوں زانوں کو کھڑا کرے اور پھر اپنے زانوں اور کمر کے گرد کوئی کپڑا اس طرح لپیٹ لے کہ ستر کھلا رہے آپ ﷺ نے اس سے اس لئے منع فرمایا کہ اس میں ستر کی پردہ پوشی نہیں ہوتی چناچہ اگر کوئی شخص مذکورہ بالا صورت میں اس طرح کپڑا لپیٹے کہ اس کا ستر چھپا رہے تو پھر یہ ممانعت نہیں رہے گی۔ بطور نکتہ ایک بات ذہن میں رہے کہ زانوں کے گرد ہاتھوں کا حلقہ بنا کر بیٹھنا مسنون ہے۔
Top