مشکوٰۃ المصابیح - جن بیوع سے منع کیا گیا ہے ان کا بیان - حدیث نمبر 2916
عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : اشترى رجل ممن كان قبلكم عقارا من رجل فوجد الذي اشترى العقار في عقاره جرة فيها ذهب فقال له الذي اشترى العقار : خذ ذهبك عني إنما اشتريت العقار ولم ابتع منك الذهب . فقال بائع الأرض : إنما بعتك الأرض وما فيها فتحاكما إلى رجل فقال الذي تحاكما إليه : ألكما ولد ؟ فقال أحدهما : لي غلام وقال الآخر : لي جارية . فقال : أنكحوا الغلام الجارية وأنفقوا عليهما منه وتصدقوا
ایک سبق آموزواقعہ
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے یہ واقعہ بیان فرمایا کہ تم سے پہلے (زمانہ کے) لوگوں میں سے ایک شخص نے ایک دوسرے شخص سے زمین کا ایک قطعہ خریدا اور اس کو اپنے تصرف میں لایا اتفاق کی بات کہ جس شخص نے زمین خریدی تھی اس نے اپنی اس خرید کردہ زمین میں ایک ایسا گھڑا پایا جس میں سونا بھرا ہوا تھا اس نے زمین بیچنے والے سے کہا کہ تم اپنا یہ سونا لے لو کیونکہ میں نے تو صرف زمین خریدی تھی یہ سونا میں نے نہیں خریدا تھا بیچنے والے نے کہا کہ میں نے تمہارے ہاتھ صرف زمین ہی نہیں بیچی تھی بلکہ ہر وہ چیز بیچ دی تھی جو اس زمین میں ہے اس لئے یہ سونا بھی تمہارا ہے اسے تمہی رکھو مگر خریدار اس پر تیار نہ ہوا یہاں تک کہ دونوں اپنا معاملہ ایک شخص حاکم و ثالث کے پاس لے گئے اس حکم نے واقعہ کی تفصیل سن کر ان دونوں سے پوچھا کہ تم دونوں کے ہاں اولاد کیا ہے ان میں سے ایک نے تو کہا کہ میرے ہاں لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا کہ میرے ہاں لڑکی ہے حاکم نے یہ سن کر کہا کہ اس لڑکے کا نکاح لڑکی سے کردو اور اس سونے کو اس دونوں پر خرچ کرو اور پھر جو کچھ بچے اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کردو۔

تشریح
یہ واقعہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانہ کا ہے جیسا کہ بعض علماء نے کہا ہے کہ ان دونوں نے جس شخص کا اپنا حاکم و ثالث بنایا تھا وہ حضرت داؤد (علیہ السلام) تھے چناچہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے صدور فیصلہ میں کمال ذہانت وذکاوت کا ثبوت دیا اور ایسا معتدل و معقول فیصلہ دیا کہ جو نبوت ہی کا خاصہ ہوسکتا ہے۔ علامہ نووی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث بیچنے والے اور خریدنے والے کے درمیان صلح صفائی کرانے کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے نیز علماء لکھتے ہیں کہ مخالف اشخاص میں صلح کرانا قاضی وحاکم کے لئے اسی طرح مستحب ہے جس طرح غیر قاضی کے لئے مستحب ہے۔
Top