مشکوٰۃ المصابیح - اجارہ کا بیان - حدیث نمبر 3015
عن خارجة بن الصلت عن عمه قال : أقبلنا من عند رسول الله صلى الله عليه و سلم فأتينا على حي من العرب فقالوا : إنا أنبئنا أنكم قد جئتم من عند هذا الرجل بخير فهل عندكم من دواء أو رقية ؟ فإن عندنا معتوها في القيود فقلنا : نعم فجاؤوا بمعتوه في القيود فقرأت عليه بفاتحة الكتاب ثلاثة أيام غدوة وعشية أجمع بزاقي ثم أتفل قال : فكأنما أنشط من عقال فأعطوني جعلا فقلت : لا حتى أسأل النبي صلى الله عليه و سلم فقال : كل فلعمري لمن أكل برقية باطل لقد أكلت برقية حق . رواه أحمد وأبو داود
جس طرح غیرشرعی جھاڑ پھونک ناجائز ہے اسی طرح اس کی اجرت بھی حرام ہے
حضرت خارجہ بن صلت اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ جب ہم لوگ رسول کریم ﷺ سے رخصت ہو کر اپنے وطن کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں ہمارا گزر عرب کے ایک قبیلے پر ہوا جس کے کچھ لوگوں نے ہم سے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تم اس شخص (یعنی رسول کریم ﷺ کے پاس سے بھلائی (یعنی قرآن پاک اور ذکر اللہ) لے کر آئے ہو تو کیا تمہارے پاس کوئی دوا یا جھاڑ پھونک بھی ہے؟ کیونکہ ہمارے ہاں ایک شخص پاگل ہوگیا ہے جو بیڑیوں میں جکڑا پڑا ہے ہم نے کہا ہاں (ہمارے پاس ایسا عمل ہے جس سے ہم اس کا علاج کرسکتے ہیں) چناچہ وہ اس پاگل کو بیڑیوں میں جکڑے ہوئے پاس لائے اور میں نے اس پر تین دن تک صبح وشام سورت فاتحہ اس طرح پڑھی کہ (پڑھتے وقت) اپنا تھوک جمع کرتا رہتا اور پھر (پڑھنے کے بعد) اس پر تھوک دیتا راوی کہتے ہیں کہ میرے چچا نے فرمایا کہ اس کے بعد (وہ اتنی جلدی اچھا ہوگیا) گویا اسے بندھی ہوئی رسی سے کھول دیا گیا ہے پھر انہوں نے مجھے اس کی اجرت کے طور پر کوئی چیز دی تو میں نے کہا کہ یہ چیز اس وقت تک نہیں کھاؤں گا جب تک کہ میں اس کے بارے میں آنحضرت ﷺ سے نہ پوچھ لوں چناچہ ( میں نے آپ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو کچھ تمہیں ملا ہے اسے کھالو کیونکہ قسم ہے اپنی زندگی کی جو شخص باطل منتر کی اجرت کھاتا ہے وہ برا کرتا ہے تم نے تو حق اور سچے منتر کی اجرت کھائی ہے ( احمد ابوداؤد)

تشریح
باطل منتر ایسی جھاڑ پھونک کو کہتے ہیں جس میں ستاروں اور ارواح خبیثہ جنات اور اللہ کے علاوہ دوسری چیزوں کا ذکر ہو اور ان میں سے مدد مانگی جاتی ہو چناچہ ایسے عملیات جو غیر اللہ کے ذکر یا غیر اللہ سے مدد مانگنے کی وجہ سے غیر شرعی ہوں جس طرح ان کو اختیار کرنا ناجائز ہے اسی طرح ان کی اجرت کھانا بھی حرام ہے۔ حق منتر ایسی جھاڑ پھونک اور عملیات کو کہتے ہیں جن میں ذکر اللہ اور قرآن کریم کی آیتیں ہوں خواہ ان کا تعلق پڑھ کر دم کرنے سے ہو یا تعویذ وغیرہ لکھ کردینے سے ہو۔ حدیث کے الفاظ فلعمری (یعنی قسم ہے اپنی زندگی کی) سے یہ اشکال واقع ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسری چیزوں کی قسم کھانا منع ہے پھر آپ ﷺ نے اپنی زندگی کی قسم کس طرح کھائی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ فلعمری سے قسم مراد نہیں ہے بلکہ دراصل یہ اہل عرب کے کلام کا ایک خاص لفظ ہے جو اکثر وبیشتر دوران گفتگو ان کی زبان پر جاری ہوتا ہے۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب کہ غیر اللہ کی قسم کھانے کی ممانعت نہیں ہوئی تھی۔ اور علامہ طیبی یہ کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اس قسم کی قسمیں کھانے کی اجازت حاصل ہو لہذا اس کا تعلق ان چیزوں سے ہوگا جو آنحضرت ﷺ کے ساتھ مختص ہیں کہ وہ آپ ﷺ کے لئے تو جائز تھیں دوسروں کے لئے جائز نہیں ہے۔
Top