مشکوٰۃ المصابیح - اجارہ کا بیان - حدیث نمبر 3019
وعن عبادة بن الصامت قال : قلت : يا رسول الله رجل أهدى إلي قوسا ممن كنت أعلمه الكتاب والقرآن وليست بمال فأرمي عليها في سبيل الله قال : إن كنت تحب أن تطوق طوقا من نار فاقبلها . رواه أبو داود وابن ماجه
دین کی تعلیم دینے کی اجرت لینے کا مسئلہ
اور حضرت عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! ایک شخص نے مجھے بطور تحفہ ایک کمان بھیجی ہے اور وہ شخص ان لوگوں میں سے ہے جنہیں میں کتاب و قرآن کی تعلیم دیا کرتا تھا اور میں سمجھتا ہوں (اس کمان کو قبول کرلینے میں اس لئے کوئی مضائقہ نہیں ہے) کہ کمان کوئی مال نہیں ہے۔ چناچہ اس کمان کے ذریعے اللہ کے راستہ (یعنی جہاد) میں تیر اندازی کروں گا آپ ﷺ نے فرمایا اگر تمہیں یہ پسند ہو کہ تمہارے گلے کو آگ کا طوق پہنایا جائے تو اسے قبول کرلو ( ابوداؤد ابن ماجہ)

تشریح
کمان کوئی مال نہیں ہے سے حضرت عبادہ کی یہ مراد تھی کہ کمان ایسی چیز نہیں ہے جسے مال یا اجرت شمار کیا جائے بلکہ یہ تو لڑائی کا ایک سامان ہے جسے میں اللہ کی راہ میں استعمال کروں گا بایں طور کہ جہاد میں اس کے ذریعے تیر اندازی کروں گا۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے انہیں متنبہ فرمایا کہ یہ کمان اگرچہ تمہیں کلام اللہ کی تعلیم کی اجرت کے طو پر نہیں ملی ہے اور نہ یہ کوئی ایسی چیز ہے جسے اجرت شمار کیا جاسکے لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ یہ تمہارے اس اخلاص کو ختم کردیگی جو تمہاری خدمت تعلیم کا محور تھا جس سے سرشار ہو کر تم نے ان لوگوں کو قرآن ودین کی تعلیم دی تھی لہذا تمہارے لئے مناسب یہی ہے کہ تم اسے قبول نہ کرو جو علماء قرآن ودین کی علیم دینے کی اجرت لینے کو حرام کہتے ہیں وہ اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے استدلال کرتے ہیں۔
Top