مشکوٰۃ المصابیح - عطایا کا بیان - حدیث نمبر 3056
وعن أبي هريرة قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا أتي بباكورة الفاكهة وضعها على عينيه وعلى شفتيه وقال : اللهم كما أريتنا أوله فأرنا آخره ثم يعطيها من يكون عنده من الصبيان . رواه البيهقي في الدعوات الكبير
آنحضرت ﷺ نئے پھل کا ہدیہ کس طرح قبول کرتے تھے
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ کو جب کوئی نیا پھل پیش کیا جاتا تو پہلے اس پھل کو قبول فرما کر اپنی آنکھوں اور ہونٹوں پر رکھتے پھر یہ فرماتے اے اللہ! جس طرح تو نے ہمیں اس پھل کی ابتداء دکھائی اسی طرح اس کی انتہاء بھی دکھا۔ اس کے بعد آپ ﷺ وہ پھل کسی اس بچے کو دیدیتے جو آپ ﷺ کے پاس ہوتا ( بیہقی)

تشریح
تازہ پھل کو اپنی آنکھوں پر رکھنے سے آپ ﷺ کا مقصد اللہ تعالیٰ کی ایک تازہ نعمت کی تعظیم ہوتا تھا انتہاء کا تعلق اگر دنیا سے ہے تو پھر یہ دعا درازی عمر کے لئے ہوگی اور اگر اس کا تعلق عقبی سے ہے تو اس سے اس طرف اشارہ ہوگا کہ آخرت کے آگے دنیا کی کیا حقیقت ہے بڑی نعمت تو آخرت کے نعمت ہے اس طرح اس دعا کا مطلب یہ ہوگا کہ اے اللہ جس طرح تو نے ہمیں اس دنیا کی نعمت عطا کی ہے اسی طرح آخرت کی نعمت بھی کہ حقیقی نعمت وہی ہے عطا فرما۔
Top