مشکوٰۃ المصابیح - مباشرت کا بیان - حدیث نمبر 3211
عن عائشة : أنها أرادت أن تعتق مملوكين لها زوج فسألت النبي صلى الله عليه و سلم فأمرها أن تبدأ بالرجل قبل المرأة . رواه أبو داود والنسائي
مملوک خاوند وبیوی کو آزاد کرنا ہو تو پہلے خاوند کو آزاد کیا جائے
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے دو مملوکوں کو آزاد کرنے کا ارادہ کیا جو آپس میں خاوند بیوی تھے تو نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا آپ نے انہیں عورت سے پہلے مرد کو آزاد کرنے کا حکم دیا (تا کہ عورت کو نکاح کے فسخ کرنے کا اختیار باقی نہ رہے) (ابوداؤد، نسائی)

تشریح
اگر حضرت عائشہ پہلے عورت کو آزاد کرتیں تو وہ آزاد ہونے کے بعد ایک غلام کے نکاح میں رہتی اس صورت میں اسے یہ اختیار حاصل ہوجاتا کہ اگر وہ چاہتی تو اپنا نکاح باقی رکھتی اور اگر اسے شوہر کے ساتھ رہنا گوارہ نہ ہوتا تو نکاح فسخ کردیتی ( جیسا کہ ائمہ ثلاثہ کا مسلک ہے اور جس کی تفصیل ابھی پیچھے گزری ہے) چناچہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ کو پہلے مرد کو آزاد کرنے کا حکم دیا تاکہ یہ اختیار نہ رہے اور مرد کی دل شکنی نہ ہو۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آپ ﷺ نے پہلے مرد کو آزاد کرنے کا حکم اس لئے دیا کہ مرد عورت کی بہ نسبت زیادہ کامل اور افضل ہوتا ہے لہذا اس کو مقدم رکھنا چاہئے، یا پھر یہ کہ آپ ﷺ اس بات کو محسوس کرتے تھے کہ مرد تو لونڈی بیوی کو گوارا کرلیتا ہے لیکن عورت اگر کسی غلام کے نکاح میں ہوتی ہے تو پھر اکثر اس سے بیزار رہتی ہے اور ہمہ وقت ذہنی اذیت وکوفت میں مبتلا رہتی ہے اس لئے آپ ﷺ نے پہلے مرد کو آزاد کرنے کا حکم دیا تاکہ اس کی بیوی اپنے شوہر کی طرف سے کسی بیزاری میں مبتلا نہ ہو۔
Top