مشکوٰۃ المصابیح - ولیمہ کا بیان - حدیث نمبر 3231
وعن سفينة : أن رجلا ضاف علي بن أبي طالب فصنع له طعاما فقالت فاطمة : لو دعونا رسول الله صلى الله عليه و سلم فأكل معنا فدعوه فجاء فوضع يديه على عضادتي الباب فرأى القرام قد ضرب في ناحية البيت فرجع . قالت فاطمة : فتبعته فقلت : يا رسول الله ما ردك ؟ قال : إنه ليس لي أو لنبي أن يدخل بيتا مزوقا . رواه أحمد وابن ماجه
دنیاوی زیب وزینت کی چیزوں سے آنحضرت ﷺ کا اجتناب
اور حضرت سفینہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت علی بن ابی طالب کے ہاں ایک مہمان آیا تو حضرت علی نے اس کے لئے کھانا تیار کرایا حضرت فاطمہ نے کہا کہ اگر ہم رسول کریم ﷺ کو بھی مدعو کرلیں اور آپ ﷺ ہمارے ساتھ کھانا کھا لیں تو بڑا اچھا ہو چناچہ آپ ﷺ کو بلایا گیا جب آپ ﷺ تشریف لائے اور مکان میں داخل ہونے کے لئے جیسے ہی دروازے کے دونوں بازوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے آپ ﷺ کی نظر اس پردہ پر پڑگئی جو گھر کے ایک کونے پر پڑا ہوا تھا آپ ﷺ اس پردہ کو دیکھتے ہی واپس ہوگئے حضرت فاطمہ کہتی ہیں کہ میں بھی آپ کے پیچھے گئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ واپس کیوں ہوگئے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھ کو یا کسی بھی نبی کو زینت والے گھر میں داخل ہونا مناسب نہیں ہے ( احمد ابن ماجہ)

تشریح
قرام باریک اور منقش پردہ کو کہتے ہیں بعض حضرات کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ کے گھر کے گوشہ میں جو پردہ پڑا ہوا تھا وہ منقش نہیں تھا لیکن اس پردہ سے دیوار کو اس طرح ڈھکا گیا تھا جیسے دولہا دلہن کے چھپر کٹ کو پردوں سے سجاتے ہیں اور ڈھکتے ہیں اور یہ چونکہ دنیا داروں اور اپنی وجاہت و مالداری کا بےجا اظہار کرنیوالوں کا طریقہ ہے اس لئے آپ ﷺ اس پردہ کو دیکھتے ہی واپس ہوگئے اور اسی طرح آپ ﷺ نے گویا یہ تنبیہ فرمائی کہ دیواروں کو اس طرح پردوں سے سجانا اور ڈھکنا مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ دنیا کی بیجازیب وزینت ہے جو آخرت کے لئے نقصان دہ بھی ہوسکتی ہے
Top