مشکوٰۃ المصابیح - باری مقرر کرنے کا بیان - حدیث نمبر 3247
عن عطاء قال : حضرنا مع ابن عباس جنازة ميمونة بسرف فقال : هذه زوجة رسول الله صلى الله عليه و سلم فإذا رفعتم نعشها فلا تزعزعوها ولا تزلزلوها وارفقوا بها فإنه كان عند رسول الله صلى الله عليه و سلم تسع نسوة كان يقسم منهن لثمان ولا يقسم لواحدة قال عطاء : التي كان رسول الله صلى الله عليه و سلم لا يقسم لها بلغنا أنها صفية وكانت آخرهن موتا ماتت بالمدينة وقال رزين : قال غير عطاء : هي سودة وهو أصح وهبت يومها لعائشة حين أراد رسول الله صلى الله عليه و سلم طلاقها فقالت له : امسكني قد وهبت يومي لعائشة لعلي أكون من نسائك في الجنة
آنحضرت ﷺ کی نو ازواج مطہرات میں سے آٹھ کے لئے باری مقرر تھی
حضرت عطاء بن رباح تابعی کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابن عباس کے ہمراہ مقام سرف میں ام المؤمنین حضرت میمونہ کے جنازہ میں شریک ہوئے تو حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ دیکھو یہ رسول کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ ہیں جب تم ان کا جنازہ اٹھاؤ تو اس کو زیادہ حرکت و جنبش نہ دینا بلکہ تعظیم و تکریم کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر) نہایت آہستگی سے اٹھانا اس لئے کہ یہ ان ازواج مطہرات میں سے ہیں جن کے لئے آنحضرت ﷺ نے باری مقرر کر رکھی تھی چنانچہ) آنحضرت ﷺ کی نو بیویاں تھیں آپ ﷺ نے ان میں سے آٹھ کے لئے باری مقرر کر رکھی تھی اور ایک کے لئے کوئی باری نہیں تھی، حضرت عطاء کہتے ہیں کہ وہ زوجہ حضرت صفیہ تھیں اور رسول کریم ﷺ کی بیویوں میں حضرت صفیہ کا سب سے آخر میں مدینہ میں انتقال ہوا ہے ( بخاری و مسلم) اور رزین کا بیان ہے کہ عطا کے علاوہ دوسرے ائمہ حدیث سے منقول ہے کہ وہ زوجہ مطہرہ جن کے لئے کوئی باری مقرر نہیں تھی ( حضرت صفیہ نہیں تھیں بلکہ) حضرت سودہ تھیں اور یہی قول زیادہ صحیح ہے اور حضرت سودہ کے لئے باری مقرر نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ) انہوں نے اپنی باری کا دن حضرت عائشہ کو دیدیا تھا جس کی تفصیل یہ ہے کہ) جب رسول کریم ﷺ نے حضرت سودہ کو طلاق دینے کا ارادہ فرمایا تو انہوں نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ میں اپنی باری کا دن عائشہ کو دیتی ہوں آپ ﷺ مجھے اپنے نکاح میں رہنے دیجئے تاکہ جنت میں آپ ﷺ کی بیویوں میں شامل رہنے کا شرف مجھے بھی حاصل رہے۔

تشریح
حضرت میمونہ جو آنحضرت ﷺ کی ایک زوجہ مطہرہ ہیں حضرت ابن عباس کی خالہ تھیں ان کے والد کا نام حارث تھا ماں کا نام ہندہ تھا خود ان کا نام برہ تھا مگر آنحضرت ﷺ نے میمونہ رکھا یہ پہلے مسعود ابن عمرو کے نکاح میں تھیں پھر ابو وہم کے ساتھ شادی ہوئی ان کا رسول کریم ﷺ کے ساتھ ذی قعدہ سن ٦ ھ میں مقام سرف جو مکہ معظمہ سے آٹھ میل کا فاصلہ ہے وہاں ان کا نکاح ہوا یہیں شب زفاف گزری اور اتفاق کی بات کہ اسی مقام سرف میں وفات پائی اور یہیں مدفون ہوئیں۔ جن زوجہ مطہرہ کے لئے باری مقرر نہیں تھی وہ حضرت صفیہ تھیں یا حضرت سودہ اس بارے میں بظاہر دو متضاد روائتیں ہیں لیکن تحقیقی بات یہی ہے کہ وہ حضرت سودہ تھیں بلکہ خطابی نے تو عطاء کے اس قول کو کہ وہ حضرت صفیہ تھیں کے بارے میں یہ کہا ہے کہ کسی راوی کی چوک ہے یعنی حضرت عطاء نے تو یہاں حضرت سودہ ہی کہا تھا مگر کسی راوی کی چوک سے حضرت صفیہ نقل ہوگیا۔ وکانت اخرہن موتا ماتت بالمدینۃ اور آنحضرت ﷺ کی بیویوں میں حضرت صفیہ کا سب سے آخر میں مدینہ میں انتقال ہوا ہے توضیح سے پہلے یہ جان لیجئے کہ آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے کس زوجہ مطہرہ کا انتقال کب ہوا ہے صاحب مواہب نے لکھا ہے کہ حضرت صفیہ کا انتقال سن ٥٠ ھ کے ماہ رمضان میں ہوا ہے اور بعض علماء نے یہ لکھا ہے کہ ان کا انتقال حضرت معاویہ کے زمانہ سن ٥٢ یا ٥٥ ہجری میں ہوا ہے اور بقیع میں مدفون ہوئیں ہیں حضرت میمونہ کا انتقال ٥١ ہجری میں ہوا اور بعض علماء کے قول کے مطابق ٦٦ یا سن ٦٣ ہجری میں ہوا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے مدینہ میں ٥٧ ہجری میں وفات پائی جب کہ بعض علماء کہتے ہیں کہ ان کی وفات سن ٥٨ میں ہوئی ہے۔ حضرت سودہ ؓ نے سن ٥٤ ہجری میں، حضرت حفصہ ؓ نے سن ٥٠ یا بعض علماء کے قول کے مطابق ٤١ ہجری میں، حضرت سلمہ ؓ نے سن ٥٩ ہجری میں، حضرت ام حبیبہ ؓ نے سن ٤٤ ہجری یا بعض علماء کے قول کے مطابق ٤٣ ہجری، حضرت زینب بنت جحش نے سن ٢٠ ہجری میں اور حضرت جویریہ ؓ نے سن ٥٠ ہجری میں انتقال کیا ہے حضرت خدیجہ ؓ کا انتقال ہجرت سے پہلے ہی مکہ میں ہوگیا تھا اور حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ بھی آنحضرت ﷺ کے سامنے ہی وفات پا گئی تھیں۔ اب اس تفصیل کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ کہنا کہ حضرت صفیہ ؓ کا سب سے آخر میں انتقال ہوا ہے، صحیح نہیں ہے اور اگر لفظ کانت کی ضمیر کا مرجع حضرت میمونہ ؓ کو قرار دیا جائے تو بھی بات صحیح نہیں ہوتی کیونکہ اگر بعض علماء کے قول کے مطابق حضرت میمونہ ؓ کا سن وفات سن ٦٦ ہجری یا ٦٣ ہجری زیادہ صحیح تسلیم کرلیا جائے تو ازواج مطہرات میں ان کا سب سے آخر میں انتقال ہونا تو ثابت ہوجائے گا مگر یہ بات خود اسی عبارت کے اگلے جملے ماتت باالمدینہ کے مطابق نہیں ہوگی کیونکہ اس بارے میں حدیث نے وضاحت کردی ہے کہ ان کا انتقال مقام سرف میں ہوا ہے۔ لہٰذا اس عبارت کا صحیح مفہوم متعین کرنا بڑا مشکل ہے، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس عبارت میں کیا مفہوم پوشیدہ ہے اور اس کا صحیح مطلب کیا ہے؟
Top