مشکوٰۃ المصابیح - نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان - حدیث نمبر 3344
نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان
نفقات نفقہ کی جمع ہے اور نفقہ اس چیز کو کہتے ہیں کہ جو خرچ کی جائے جب کہ شرعی اصطلاح میں طعام لباس اور سکنی مکان کو نفقہ کہتے ہیں چونکہ نفقہ کی کئی نوعیتیں اور قسمیں ہوتی ہیں جیسے بیوی کا نفقہ اولاد کا نفقہ والدین کا نفقہ اور عزیز و اقا رب کا نفقہ وغیرہ اس لئے نفقہ کی ان انواع کے اعتبار سے عنوان میں نفقات یعنی جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے نیز یہاں نفقہ سے اس کا عام مفہوم مراد ہے خواہ واجب ہو یا غیر واجب ہو۔ لونڈی غلام کے حقوق کا مطلب ہے ان کو کھلانا پہنانا اور ان پر ایسے کاموں کا بوجھ نہ ڈالنا جو ان کی طاقت و ہمت سے باہر ہوں۔ بیوی کے نفقہ کے احکام و مسائل مرد پر اپنی بیوی کا نفقہ یعنی کھانے پینے کا خرچ لباس اور مکان دینا واجب ہے چاہے مرد عمر میں اپنی بیوی سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو اور خواہ بیوی مسلمان ہو یا کافرہ ہو خواہ بالغہ ہو یا ایسی نابالغہ ہو جس سے جماع نہ کیا جاسکتا ہو لیکن نفقہ واجب ہونے کی شرط یہ ہے کہ اس بیوی نے اپنے آپ کو شوہر کے گھر میں شوہر کے سپرد کردیا ہو اگر سپرد نہ کیا ہو تو اس کی وجہ یا تو اس کا کوئی حق ہو کہ جس کو ادا کرنے سے انکار کرتا ہو یا خود شوہر سپرد کرنے کا مطالبہ نہ کرتا ہو۔ بہتر یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو اپنا ہم پیالہ وہم نوالہ بنائے دونوں ایک ساتھ رہیں اور حیثیت کے مطابق جو کچھ میسر ہو اس میں دونوں گزارہ کریں اور جیسا کہ شریف گھرانوں کا قاعدہ ہے شوہر باہر کسب معاش کرے اور بیوی گھر کے انتظامات کی ذمہ دار بنے شوہر جو کچھ کمائے اس کے مطابق جنس و سامان گھر میں مہیا کرے اور بیوی اپنی سلیقہ شعاری کے ذریعہ اس جنس و سامان کو پورے گھر اور متعلقین کی ضرورتوں میں صرف کرے اور اگر کسی وجہ سے شوہر و بیوی کا اس طرح ہم پیالہ وہم نوالہ رہنا ممکن نہ ہو اور بیوی قاضی و حاکم کے یہاں یہ درخواست کرے کہ میرے لئے شوہر پر نفقہ مقرر کردیا جائے تو حاکم و قاضی کی طرف سے بیوی کے لئے ماہانہ نفقہ کھانے پینے کا خرچ مقرر کردیا جائے گا۔ اور وہ مقرر مقدار اس کے سپرد کردیا جائے گا اسی طرح ایک سال میں دو مرتبہ کپڑا دینا مقرر کیا جائے گا اور وہ مقرر کپڑا ہر ششماہی پر اس کے حوالہ کردیا جائے گا اگر قاضی وحاکم نے عورت کے لئے ماہانہ نفقہ مقرر کردیا تو شوہر اس کو ماہانہ ادا کرے گا اور اگر شوہرنے ماھانہ نہ دیا اور عورت نے روزانہ طلب کیا تو شام کے وقت عورت کو مطالبہ کرنے کا اختیار ہوگا۔ نفقہ مقرر کرنے کے سلسلہ میں اس مقدار کا لحاظ رکھا جائے گا جو بیوی کے لئے کافی ہو اور بغیر کسی اسراف و تنگی کے اپنا گزارہ کرسکے۔ رہی معیار کی بات تو اس میں میاں بیوی دونوں کی حالت و حیثیت کا اعتبار ہوگا اگر وہ دونوں مالی طور پر اچھی حالت و حیثیت کے مالک ہیں تو اچھی ہی حیثیت کا نفقہ بھی واجب ہوگا اور اگر وہ دونوں تنگ دست و مفلس ہوں تو نفقہ بھی اسی کے اعتبار سے واجب ہوگا اور اگر یہ صورت ہو کہ میاں تو خوش حال ہو اور بیوی تنگدست ہو یا میاں تنگدست ہو اور بیوی خوشحال ہو تو پھر درمیانی درجہ کا نفقہ واجب ہوگا یعنی وہ نفقہ دیا جائے گا جو خوشحالی کے درجہ سے کم ہو اور تنگدستی کے درجہ سے زیادہ ہو اور بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ بہرصورت شوہر ہی کی حالت کا اعتبار کیا جائے گا وہ جس حالت و حیثیت کا ہوگا اسی کے مطابق نفقہ مقرر کیا جائے گا خواہ بیوی کسی بھی حیثیت وحالت کی مالک ہو۔ اگر شوہر و بیوی کے درمیان خوشحالی و تنگدستی کے بارے میں اختلاف پیدا ہوجائے یعنی شوہر تو کہے کہ میں تنگدست ہوں اس لئے تنگدستی کا نفقہ دوں گا اور بیوی کہے کہ نہیں تم خوشحال ہو اس لئے میں خوشحالی کا نفقہ لوں گی اور پھر یہ معاملہ حاکم وقاضی کی عدالت میں پہنچے اور بیوی اپنے دعوی کے گواہ پیش کر دے تو ان گواہوں کا اعتبار کر کے بیوی کے لئے خوشحالی کا نفقہ مقرر کیا جائے گا اور اگر بیوی نے گواہ پیش نہ کئے تو پھر شوہر کے قول کا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر بیوی کے ساتھ کوئی خادم یا خادمہ بھی ہے اور شوہر خوشحال ہے تو عورت کے نفقہ کے ساتھ اس خادم یا خادمہ کا نفقہ بھی شوہر پر واجب ہوگا اور اگر شوہر تنگ دست ہو تو اس خادم یا خادمہ کا نفقہ شوہر پر لازم نہیں ہوگا۔ اگر حاکم و قاضی نے شوہر کی تنگدستی کی وجہ سے اس کی بیوی کے لئے تنگدستی کا نفقہ مقرر کردیا اور پھر شوہر خوش حال ہوگیا اور بیوی نے خوش حالی کے نفقہ کا دعوی کردیا تو اس کے لئے خوشحالی کا نفقہ مقرر کیا جائے گا اور اگر شوہر کی خوش حالی کی وجہ سے بیوی کے لئے خوشحالی کا نفقہ مقرر کیا گیا تھا اور پھر شوہر تنگدست ہوگیا تو اب تنگدستی کا نفقہ مقرر کردیا جائے گا۔ جو عورت شوہر کی وفات کی عدت میں ہو اس کو نفقہ نہیں ملتا خواہ حاملہ ہو یا غیر حاملہ ہو اسی طرح جو بیوی نافرمان ہوجائے یعنی شوہر کی اجازت کے بغیر اور بلا کسی وجہ کے شوہر کے گھر سے چلی جائے تو اس کا نفقہ بھی شوہر پر واجب نہیں ہوگا۔ نیز جو بیوی کسی دین یعنی قرض وغیرہ کی عدم ادائیگی کی جہ سے قید خانہ میں ڈال دی گئی ہو یا اپنے میکہ میں ایسی بیمار ہو کہ شادی کے بعد شوہر کے گھر نہ بھیجی گئی ہو، یا اس کو کوئی غاصب لے کر بھاگ گیا ہو یا وہ اتنی کم عمر ہو کہ اس کے ساتھ جماع نہ کیا جاسکتا ہو اور یا بغیر شوہر کے حج کو چلی گئی ہو تو اس کا نفقہ بھی شوہر پر واجب نہیں ہوگا ہاں جو بیوی شوہر کے ساتھ حج کو جائے گی اس کا حضر کا نفقہ شوہر پر واجب ہوگا سفر کا خرچ اور سواری کا کرایہ واجب نہیں ہوگا۔ اگر بیوی اپنے میکہ میں بیمار ہوئی اور نکاح کے بعد ہی شوہر کے گھر بھیجی گئی تو اس کا نفقہ بھی شوہر پر واجب نہیں ہوگا البتہ جو بیوی اپنے شوہر کے گھر آ کر بیمار ہوئی ہے اس کا نفقہ شوہر پر واجب ہوگا۔ شوہر کو چاہئے کہ بیوی کے رہنے کا ٹھکانہ و مکان شرعی مقاصد کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق خود مقرر و مہیا کرے اور وہ مکان ایسا ہونا چاہئے جو خود اس کے اہل و عیال اور اس بیوی کے اہل و عیال سے خالی ہو اور اگر خود بیوی ان اہل و عیال کے ساتھ رہنا چاہے تو پھر اس طرح کا مکان بنادینا واجب نہیں رہے گا۔ اگر شوہر کے گھر میں کئی کمرے ہوں اور ان میں سے ایک کمرہ کہ جس میں کواڑ اور تالہ کنجی وغیرہ ہو خالی کر کے بیوی کو دیدے تو یہ کافی ہے بیوی کو دوسرے کمرے کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہوگا۔ اگر شوہر چاہے کہ گھر میں بیوی کے پاس اس کے عزیز و اقا رب کو اگرچہ دوسرے شوہر سے اس بیوی کا لڑکا ہی کیوں نہ ہو) آنے سے منع کر دے تو اس کو اس کا حق ہے ہاں اگر بیوی کے وہ عزیز واقا رب اس کے محرم ہوں تو ان کو بیوی کا سامنا کرنے یا اس سے بات چیت کرنے سے روکنے کا حق اس کو نہیں ہے اسی طرح شوہر کو یہ بھی حق نہیں ہے کہ وہ مہینہ میں ایک بار بیوی کو اپنے والدین کے پاس جانے یا والدین کو اس کے پاس آنے سے روکے یعنی ہفتہ میں ایک بار سے زائد آنے جانے سے روک سکتا ہے) اور والدین کے علاوہ دوسرے ذی رحم محرم رشتہ داروں کے پاس سال بھر میں ایک مرتبہ بیوی کے جانے یا بیوی کے پاس ان کے آنے پر پابندی عائد کرنے کا حق نہیں ہے یعنی سال بھر میں ایک بار سے زائد ان کے آنے پر پابندی عائد کرسکتا ہے۔ جو عورت طلاق کی عدت میں ہو وہ شوہر سے نفقہ اور رہنے کے لئے مکان پانے کی مستحق ہے خواہ طلاق رجعی ہو یا بائن ہو یا مغلظہ ہو اور خواہ عورت حاملہ ہو یا غیرحاملہ ہو، اسی طرح جو عورت ایسی تفریق جدائی کی عدت میں ہو جو کسی معصیت کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی شرعی حق کی وجہ سے واقع ہوئی ہو تو اس کا نفقہ وسکنی بھی شوہر کے ذمہ ہوگا، مثلا کوئی ام ولد یا مدبرہ کسی کے نکاح میں تھی اور پھر خیار عتق کی بناء پر اس نے شوہر سے جدائی اختیار کرلی یا کسی نابالغہ کا نکاح اس کے ولی نے کسی شخص سے کردیا تھا اور پھر اس نے بالغ ہونے کے بعد خیار بلوغ کی بناء پر اس شوہر سے جدائی اختیار کرلی تو ان صورتوں میں بھی عورت نفقہ اور سکنی پانے کی مستحق ہوگی اور اگر عورت کسی ایسی تفریق (جدائی) کی عدت میں ہو جو کسی معصیت کی بناء پر واقع ہوئی ہو اور اس کا نفقہ وسکنی شوہر کے ذمہ نہیں ہوگا، مثلا عورت نعوذ باللہ مرتد ہوگئی یا اس نے شوہر کے بیٹے سے کوئی ایسا برا فعل کرا لیا جس سے شوہر پر حرام ہوگئی جیسے اس سے ہم بستری کرلی یا اس کو شہوت سے چھو لیا یا اس کا بوسہ لیا اور اس کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان جدائی واقع ہوگئی اور وہ عدت میں بیٹھ گئی تو ان صورتوں میں وہ شوہر سے کھانے پینے کا خرچ اور رہنے کے لئے مکان پانے کی مستحق نہیں ہوگی۔ اگر کسی عورت کو تین طلاقیں دی گئیں اور وہ عدت میں بیٹھ گئی نیز نفقہ وسکنی کی حقدار رہی لیکن پھر زمانہ عدت میں نعوذ باللہ مرتد ہوگئی تو اس کے نفقہ وسکنی کا حق ساقط ہوجائے گا اور اگر عورت نے اپنے زمانہ عدت میں شوہر کے لڑکے یا شوہر کے باپ سے ناجائز تعلق قائم کرلیا یا شہوت سے بوس و کنار کرا لیا تو نفقہ وسکنی کی مستحق رہے گی بشرطیکہ وہ عدت طلاق رجعی کی نہ ہو بلکہ طلاق بائن مغلظہ کی ہو۔ اولاد کے نفقہ کے احکام ومسائل نابالغ اولاد جس کی ذاتی ملکیت میں کچھ بھی مال واساب نہ ہو کے اخراجات اس کے باپ کے ذمہ ہوتے ہیں۔ اگرچہ باپ خود تنگدست ومفلسی کیوں نہ ہو کوئی دوسرا آدمی اس ذمہ داری میں شریک نہیں کیا جائے گا۔ اگر بچہ ابھی دودھ پیتا ہو اور اس کی ماں اس کے باپ کے نکاح میں ہو نیز وہ بچہ دوسری عورت کا دودھ پی لیتا ہو اور اس کی ماں اس کو دودھ پلانا نہ چاہتی ہو تو اس ماں کو دودھ پلانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا ہاں اگر بچہ کسی دوسری عورت کا دودھ پیتا ہی نہ ہو یا ماں کے علاوہ دودھ پلانے والی نہ ملے تو اس صورت میں وہ دودھ پلانے پر مجبور کی جائے گی۔ اگر ماں بچہ کو دودھ پلانے سے انکار کر دے اور کوئی دوسری عورت دودھ پلانے والی ملتی ہو تو یہ حکم ہے کہ باپ دودھ پلانے والی کو مقرر کر دے جو بچہ کو ماں کے پاس آ کر دودھ پلائے اب اگر اس بچہ کی ذاتی ملکیت میں مال موجود ہو تو اس دودھ پلانیوالی کی اجرت اس بچہ کے مال سے دی جائے گی۔ اگر بچہ کی ذاتی ملکیت میں مال موجود نہ ہو تو پھر دودھ پلانے کی اجرت باپ کے ذمہ ہوگی۔ اگر باپ بچہ کی ماں کو دودھ پلانے کے لئے اجارہ پر مقرر کرے اور وہ اس کے نکاح میں ہو یا طلاق رجعی کی عدت میں ہو تو یہ جائز نہیں ہے ہاں اگر وہ ماں طلاق بائن یا طلاق مغلظہ کی عدت میں ہو تو اس کو بھی دودھ پلانے کیلئے اجرت پر رکھنا بعض حضرات کے نزدیک تو ناجائز ہے اور بعض حضرات کے نزدیک جائز ہے اسی طرح عدت گزرنے کے بعد ماں کو دودھ پلانے کے لئے اجرت پر رکھ لینا جائز ہے بلکہ اس صورت میں تو وہ ماں دودھ پلانیوالی کسی دوسری عورت کی بہ نسبت زیادہ اجرت کا مطالبہ نہ کرے تو اس کی حماقت ہوگی۔ اگر کوئی شخص اپنی منکوحہ یا معتدہ کو اپنے اس بچہ کو دودھ پلانے کے لئے اجرت پر رکھے جو دوسری بیوی کے بطن سے ہو تو یہ اجارہ جائز ہے اگر کسی کی بالغ بیٹی بالکل مفلس و تنگدست ہو یا بالغ بیٹا اپاہج و معذور ہو تو ان کے اخراجات بھی باپ ہی کے ذمہ ہوں گی چناچہ فتوی اسی پر ہے جبکہ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ ان کے اخراجات کا دو تہائی حصہ باپ کے ذمہ اور ایک حصہ ماں کے ذمہ ہوگا۔ والدین کے نفقہ کے احکام ومسائل اصول یعنی باپ دادا دادی نانا نانی ( خواہ اس کے اوپر کے درجہ کے ہوں) اگر محتاج ہوں تو ان کے اخرجات کی ذمہ داری اولاد پر ہے بشرطیکہ اولاد خوشحال وتونگر ہو اور خوشحال وتونگر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اولاد مالی طور پر اس حیثیت ودرجہ کی ہو کہ اس کو صدقہ وزکوۃ کا مال لینا حرام ہو اگر تونگر اولاد میں مذکر ومؤنث یعنی بیٹا اور بیٹی دونوں ہوں تو اس نفقہ کی ذمہ داری دونوں پر برابر ہوگی۔ محتاج شخص کا نفقہ واجب ہونے کے سلسلے میں قرب وجزئیت کا اعتبار ہے نہ کہ وارث کا مثلا اگر کسی محتاج شخص کی بیٹی اور پوتا دونوں مال دار ہوں تو اس کا نفقہ بیٹی پر واجب ہوگا باوجودیکہ اس شخص کی میراث دونوں کو پہنچتی ہے اسی طرح اگر کسی محتاج شخص کی نواسی اور بھائی دونوں مالدار ہوں تو اس کا نفقہ نواسی پر واجب ہوگا اگرچہ اس شخص کی میراث کا مستحق صرف بھائی ہوگا۔ ذوی الارحام کے نفقہ کے احکام ومسائل ہر مالدار شخص پر اس کے ہر ذی رحم محرم کا نفقہ واجب ہے بشرطیکہ وہ ذی رحم محرم محتاج ہو یا نابالغ ہو یا مفلس عورت ہو یا اپاہج ومعذور ہو یا اندھا ہو یا طالب علم ہو اور یا جہل و بیوقوفی یا کسی اور عذر کی بنا پر کمانے پر قادر نہ ہو اور اگر وہ مالدار شخص ان لوگوں پر خرچ نہ کرے تو اس کو خرچ کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ ذی رحم محرم رشتہ داروں کا نفقہ مقدار میراث کے اعتبار سے واجب ہوتا ہے۔ اور میراث کی مقدار کے اعتبار کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنی محتاجی و تنگدستی کی وجہ سے اپنے ذی رحم محرم رشتہ داروں سے نفقہ حاصل کرنے کا مستحق ہے اگر اس کو مردہ تصور کرلیا جائے اور اس کی میراث کو اس کے ان ذی رحم محرم وارثوں پر تقسیم کیا جائے تو جس وارث کے حصہ میں میراث کی جو مقدار آئے گی وہی مقدار اس کے نفقہ کے طور پر اس ذی رحم محرم پر واجب ہوگی مثلا زید ایک محتاج و تنگدست شخص ہے اس کے قریبی اعزاء ہیں صرف تین متفرق بہنیں ہیں یعنی ایک تو حقیقی بہن ہے ایک سوتیلی بہن ہے اور ایک اخیافی بہن ہے ان تینوں بہنوں پر زید کا نفقہ واجب ہے جس کو وہ تینوں اس طرح پورا کریں گی کہ زید کا پورا نفقہ پانچ برابر برابر حصوں میں کر کے تین خمس تو حقیقی بہن کے ذمہ ہوگا ایک خمس سوتیلی بہن کے ذمہ ہوگا اور ایک خمس اخیافی بہن کے ذمہ ہوگا مقدار کی یہ تقسیم بالکل اسی طرح ہے جس طرح ید کے ترکہ میں سے ان بہنوں کے حصہ کی میراث کی تقسیم ہوگی۔ نیز اس سلسلہ میں مقدار میراث کا درحقیقت ہر وقت متعین و معلوم ہونا شرط نہیں ہے بلکہ محض وراثت کی اہلیت کا ہونا شرط ہے چناچہ اگر زید (جو محتاج ومفلس ہے) کا ایک ماموں ہے اور ایک چچا زاد بھائی ہے اور وہ دونوں ہی مالدار ہیں تو زید کا نفقہ اس کے ماموں پر واجب ہوگا۔ جو شخص محتاج ومفلس ہو اس پر کسی کا نفقہ واجب نہیں ہوتا خواہ وہ والدین ہوں یا ذی رحم محرم رشتہ دار لیکن بیوی اور اولاد کا نفقہ اس پر ہر حال میں واجب رہے گا۔ دین و مذہب کے اختلاف کی صورت میں ایک دوسرے پر نفقہ واجب نہیں ہوتا لیکن بیوی والدین دادا دادی اور اولاد اور اولاد کی اولاد خواہ مذکر ہوں یا مؤنث یہ لوگ اس حکم سے مستثنی ہیں ان کا نفقہ دین و مذہب کے اختلاف کے باوجود واجب ہوتا ہے۔ محتاج باپ کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے نفقہ کے لئے اپنے لڑکے کا مال یعنی اشیاء منقولہ بیچ سکتا ہے لیکن عقار یعنی اشیاء غیر منقولہ جیسے زمین و باغات کو بیچنے کا اختیار نہیں ہوگا اسی طرح اس لڑکے پر اگر باپ کا نفقہ کے علاوہ کوئی اور دین یعنی قرض و مطالبہ ہو تو اس کے لئے لڑکے کی اشیاء منقولہ کو بھی بیچنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ نیز ماں کو اپنے لڑکے کا بھی کوئی مال خواہ اشیاء منقولہ ہو یا غیرمنقولہ بیچنے کا اختیار حاصل نہیں ہوتا اور صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک تو باپ کو بھی اشیاء منقولہ کے بیچنے کا اختیار نہیں ہے۔ باندی اور غلام کے نفقہ کے احکام ومسائل آقا پر اپنے غلام اور باندی کے اخراجات کی کفالت ضروری ہے خواہ ان میں ملکیت پوری ہو جسے خالص غلام یا ادھوری ہو جیسے مدبرہ اور ام ولد اور خواہ کمسن ہوں یا بڑی عمر والے اور خواہ اپاہج و معذور ہوں۔ یا بالکل تندرست و توانا ہوں۔ اگر کوئی شخص اپنے غلاموں کی کفالت سے انکار کرے تو وہ غلام اس بات کے مختار ہوں گے کہ محنت و مزدوری کریں اور جو کچھ کمائیں اس سے اپنے اخراجات پورے کریں اور اگر ان کے لئے کوئی مزدوری کا کام نہ ہو اور وہ کما کر اپنے اخراجات پورے نہ کرسکتے ہوں تو پھر قاضی وحاکم کی طرف سے آقا کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ ان غلاموں کو فروخت کر دے۔ اگر کسی شخص نے کوئی جانور خریدا تو اس پر جانور کے چارہ پانی کا انتظام کرنا واجب ہے لیکن اگر ان کو چارہ پانی دینے سے انکار کردیا تو اس کو قانونی طور پر اس جانور کو فروخت کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ لیکن دیانۃً اور اخلاقی طور پر اس کو حکم دیا جائے گا کہ وہ اس جانور کو فروخت کر دے یا اس کے چارہ پانی کا انتظام کرے۔
Top