مشکوٰۃ المصابیح - نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان - حدیث نمبر 3399
عن ابن عمر رضي الله عنهما أكثر ما كان النبي صلى الله عليه و سلم يحلف : لا ومقلب القلوب . رواه البخاري
قسم کی قسمیں اور ان کے احکام
سوال جو کھانا بزرگوں کی نذر ونیاز کے طور پر مانا جاتا ہے اس کو کھانا اور اس طرح ( یعنی بزرگوں کی نذر ماننا اور ان کی نیاز کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو کس طرح؟ نیز بعض نذر بشرط حاجت براری مانی جاتی ہے اور بعض نذر بلاشرط مانی جاتی ہے ان دونوں میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟ جواب شریعت میں نذر کا مفہوم ہے اپنے اوپر کسی غیر واجب کو واجب کرلینا، چناچہ جامع الرموز میں لکھا ہے کہ (النذر ایجاب علی النفس ما لیس علیھا بالقبول ) کسی ایسی چیز کو اپنے اوپر واجب کرلینے کو نذر کہتے ہیں جس پر عمل کرنا اس کے لئے ضروری نہیں تھا۔ اور امام رازی نے تفسیر کبیر میں آیت کریمہ (او نذرتم من نذر) کی تفسیر کے تحت فرمایا ہے کہ (النذر ما الزمہ الانسان علی نفسہ)۔ نذر وہ ہے جس کو انسان اپنے اوپر لازم کرے۔ نذر کی مختصر توضیح تو یہ ہے اور اس کی تفصیل فقہ اور اصول فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے۔ نیاز فارسی کا لفظ ہے جس کے کتنے ہی معنی ہیں ان میں سے ایک معنی یہ بھی ہیں تحفہ درویشاں وکذافی البرہان القاطع ان دونوں لفظوں یعنی نذر ونیاز کے ان لغوی اور اصطلاحی معنی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کا شرعی حکم ماننا چاہئے کے نذر اللہ کے علاوہ اور کسی کے لئے جائز نہیں ہے اور اگر کوئی شخص غیر اللہ کی نذر مانے تو وہ صحیح نہیں ہوگی، نیز ایسی نذر کی چیز کو لینا یا کھانا صحیح ومستند فقہی روایات کے بموجب قطعاً ناروا ہے یہ تو نذر کا حکم ہے اب رہا نیاز کا معاملہ تو جیسا کہ معلوم ہوا لفظ نیاز کے معنی ہیں، تحفہ درویشاں اور وہ بر و صلہ ہے ( یعنی بخشش و ہدیہ ہے) لہٰذا اگر کوئی شخص کسی زندہ بزرگ کی خدمت میں کوئی چیز بطریق نیاز یعنی عطاء و ھدیہ اور تحفہ کے طور پر پیش کرے تو وہ نیاز جائز ہے اور اس بزرگ کو وہ چیز کھانا یا استعمال کرنا جائز ہے۔ اسی طرح اگر کسی مرحوم بزرگ کی نیاز یعنی فاتحہ وایصال ثواب کی جائے تو یہ نیاز بھی جائز ہے لیکن اس نیاز کی چیز کو کھانے کے سلسلے میں کچھ تفصیل ہے اور وہ یہ کہ اگر نیاز دینے والے نے وفات پائے ہوئے بزرگ کو صدقہ ماکولی کا ثواب پہنچانے کی نیت کی ہو تو اس چیز کو کھانا صرف فقراء کے لئے جائز ہے مستطیع لوگوں کے لئے جائز نہیں ہے، اگر نیاز دینے والے نے مسلمانوں کے حق میں اباحت ماکولی کا ثواب اس بزرگ کو پہنچانے کی نیت کی ہو تو اس صورت میں اس چیز کو کھانا ہر بھوکے کے لئے جائز ہے خواہ وہ فقیر ہو یا مستطیع ہو۔ حاصل یہ ہے کہ کسی بزرگ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے یا حاجت براری کی شرط کے ساتھ اس بزرگ کی جو نذر مانی جاتی ہے وہ منقولات بالا کی روشنی میں ناجائز ہے اور اس نذر کی چیز کو کھانا یا استعمال کرنا ناروا ہے۔ ہاں جس نذر کا تعلق نہ تو بزرگ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ہوتا ہے اور نہ وہ کسی حاجت براری کے ساتھ مشروط ہوتی ہے بلکہ پہلے وہ چیز اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے لئے صدقہ کی جاتی ہے اور پھر اس بزرگ کو پہنچایا جاتا ہے تو اس چیز کو کھانا اور استعمال کرنا مستطیع لوگوں کے لئے تو جائز نہیں ہے بشرطیکہ نذر ماننے والے نے اس بزرگ کو صدقہ ماکولی کا ثواب پہنچانے کی نیت کی ہو اور اگر نذر ماننے والے نے اس بزرگ کو اباحت ماکولی کا ثواب پہنچانے کی نیت کی ہو تو اس چیز کا کھانا اور استعمال کرنا مستطیع لوگوں کے لئے بھی جائز ہے اور فقراء کے لئے بھی جائز ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اسی طرح نیاز کا مسئلہ بھی یہ ہے کہ بزرگوں کی نیاز اگر محض ایصال ثواب کے طور پر ہو تو جائز ہے اور ان کا تقرب یا ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے کسی چیز کو ان کے نام پر اپنے اوپر واجب کرنا جائز نہیں ہے۔ خواہ اس چیز کو اپنے اوپر واجب کرنا کسی حاجت براری کے ساتھ معلق ہو اور خواہ اس کے بغیر ہو، کیونکہ یہ نذر ہے اور نذر اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے جائز نہیں ہے۔ لہٰذا واضح ہو کہ خواہ حاجت براری کے ساتھ معلق کر کے اور خواہ اس کے بغیر کسی چیز کو اپنے اوپر اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام پر واجب کرنا دونوں ہی صورتوں میں ناجائز ہے۔ ہاں بزرگوں کی نیاز اس معنی میں جائز ہے کہ اس سے کسی بزرگ کا تقرب یا حاجت براری کی نیت نہ ہو بلکہ اس کا مقصد محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول اور اس کا ثواب اس بزرگ کو پہنچانا ہو اور نیاز کی ہوئی چیز کو مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں کھانا اور استعمال کرنا جائز ہے۔ دلیل الضالین میں لکھا ہے کہ نذر صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتی ہے اور کسی کے لئے نہیں ہوتی، لہٰذا اگر کسی شخص نے انبیاء میں سے کسی نبی یا اولیاء میں سے کسی ولی کی نذر مانی تو اس پر کچھ واجب نہیں ہوتا یعنی اس نذر کو پورا کرنا اس شخص پر لازم نہیں ہوتا، نیز اگر وہ شخص اس نذر کی چیز کو اپنی اسی نیت کے ساتھ کسی آدمی کو دے دے تو اس آدمی کو وہ چیز لینا جائز ہے اگر وہ کھانے کی کوئی چیز ہو تو اس کو کھانا حلال نہیں ہے اور اگر وہ چیز کوئی ذبح کیا ہوا جانور ہو تو وہ مردار کے حکم میں ہے بلکہ اگر لوگ اس کو بسم اللہ کر کے کھائیں تو سب کافر ہوجائیں گے، ہاں اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے لئے نذر مانے اور پھر نذر کی ہوئی چیز کو لوگ کھائیں اور اس کا ثواب کسی میت کا بخشیں تو یہ جائز ہے۔ اور حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ اکثر اس طرح قسم کھایا کرتے تھے قسم ہے دلوں کو پھیرنے والے کی۔ ( بخاری)

تشریح
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کسی صفت کی قسم کھانا جائز ہے۔
Top