مشکوٰۃ المصابیح - نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان - حدیث نمبر 3400
وعنه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : إن الله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم من كان حالفا فليحلف بالله أو ليصمت وعن عبد الرحمن بن سمرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تحلفوا بالطواغي ولا بآبائكم . رواه مسلم وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : من حلف فقال في حلفه : باللات والعزى فليقل : لا إله إلا الله . ومن قال لصاحبه : تعال أقامرك فليتصدق
غیر اللہ کی قسم کھانے کی ممانعت
اور حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے منع فرماتا ہے کہ تم اپنے باپوں کی قسم کھاؤ! جس شخص کو قسم کھانا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ ( کے نام یا اس کی صفات) کی قسم کھائے یا چپ رہے۔ ( بخاری ومسلم)

تشریح
باپ کی قسم کھانے سے منع کرنا مثال کے طور پر ہے، اصل مق صد تو یہ ہدایت دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی قسم نہ کھایا کرو۔ بطور خاص باپ کو ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی عادت ہے کہ وہ باپ کی قسم بہت کھاتے ہیں! نیز عبداللہ کی قسم کھانے کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کمال عظمت و جلالت کے سبب چونکہ قسم اسی ذات کے ساتھ مخت ص ہے، اس لئے کسی غیر اللہ کو اللہ کے مشابہ نہ قرار دیا جائے، چناچہ حضرت ابن عباس کے بارے میں منقول ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ میں سو مرتبہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھاؤں اور پھر اس کو توڑ ڈالوں، اس کو اس سے بہتر سمجھتا ہوں کہ کسی غیر اللہ کی قسم کھاؤں اور اس کو پورا کروں۔ ہاں جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کا سوال ہے تو اس کو سزاوار ہے کہ وہ اپنی عظمت و جلالت کے اظہار کے لئے اپنی مخلوقات میں سے جس کی چاہے قسم کھائے۔ اس حدیث کے ضمن میں ایک اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ ایک موقع پر آنحضرت ﷺ سے یوں منقول ہوا ہے (افلح وابیہ) یعنی آپ ﷺ نے باپ کی قسم کھائی جب کہ یہ حدیث اس کے سراسر خلاف ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا باپ کی قسم کھانا اس ممانعت سے پہلے کا واقعہ ہوگا۔ اس صورت میں دونوں حدیثوں میں کوئی تضاد باقی نہیں رہتا، یا پھر یہ کہ آنحضرت ﷺ نے یہ باپ کی قسم قصدًا نہ کھائی ہوگی بلکہ قسم کہ یہ الفاظ قدیم عادت کی بناء پر اضطرارًا آپ ﷺ کی زبان سے نکل گئے ہوں گے۔ اور حضرت عبد الرحمٰن ابن سمرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا نہ بتوں کی قسم کھاؤ اور نہ اپنے باپوں کی قسم کھاؤ۔ ( مسلم) تشریح ایام جاہلیت میں عام طور پر لوگ بتوں اور باپوں کی قسم کھایا کرتے تھے، چناچہ آنحضرت ﷺ نے لوگوں کو قبولیت اسلام کے بعد اس سے منع فرمایا تاکہ وہ اس بارے میں احتیاط رکھیں اور قدیم عادت کی بنا پر اس طرح کی قسمیں ان کی زبان پر نہ چڑھیں۔ اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص قسم کھائے اور اپنی قسم میں یہ الفاظ ادا کرے میں لات و عزیٰ کی قسم کھاتا ہوں تو اسے چاہئے کہ وہ لاالہ الا اللہ کہے۔ اور جو شخص اپنے کسی دوست سے یہ کہے کہ آؤ ہم دونوں جوا کھیلیں تو اس کو چاہئے کہ وہ صدقہ و خیرات کرے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح وہ لا الہ الا اللہ کہے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرے۔ اس حکم کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ اگر لات و عزیٰ کے نام کسی نو مسلم کی زبان سے سہواً نکل جائیں تو اس کے کفارہ کے طور پر کلمہ پڑھے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ا یت (فان الحسنات یذھبن السیاٰت ) بلا شبہ نیکیاں، برائیوں کو دور کر دیتیں ہیں۔ پس اس صورت میں غفلت و سہو سے توبہ ہوجائے گی۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ اگر ان کی زبان سے لات و عزیٰ کے نام ان بتوں کی تعظیم کے قصد سے نکلے ہوں گے تو یہ صراحتاً ارتداد اور کفر ہے لہٰذا اس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ تجدید ایمان کے لئے کلمہ پڑھے اس صورت میں معصیت سے توبہ ہوگی۔ صدقہ و خیرات کرے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے دوست کو جوا کھیلنے کی دعوت دے کر چونکہ ایک بڑی برائی کی ترغیب دی ہے، لہٰذا اس کے کفارہ کے طور پر وہ اپنے مال میں سے کچھ حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس نے جس مال کے ذریعہ جوا کھیلنے کا ارادہ کیا تھا اسی مال کو صدقہ و خیرات کر دے! اس سے معلوم ہوا کہ جب محض جوا کھیلنے کی دعوت دینے کا کفارہ یہ ہے کہ صدقہ و خیرات کرنے چاہیے تو یہ شخص واقعتا کھیلے گا تو اس کا کیا حشر ہوگا۔
Top