مشکوٰۃ المصابیح - نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان - حدیث نمبر 3418
وعن ثابت بن الضحاك قال : نذر رجل على عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم أن ينحر إبلا ببوانة فأتى رسول الله صلى الله عليه و سلم فأخبره فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : هل كان فيها وثن من أوثان الجاهلية يعبد ؟ قالوا : لا قال : فهل كان فيه عيد من أعيادهم ؟ قالوا : لا فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أوف بنذرك فإنه لا وفاء لنذر في معصية الله ولا فيما لا يملك ابن آدم . رواه أبو داود
صرف اس نذر کو پورا کرو جو جائز ہے
اور حضرت ثابت ابن ضحاک کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے زمانے میں ایک شخص نے یہ نذر مانی کہ وہ بوانہ میں ( جو مکہ کے نشیبی علاقہ میں واقع ایک جگہ کا نام تھا) اونٹ ذبح کرے گا، پھر وہ شخص رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور آپ ﷺ کو اپنی ( نذر کی) خبر دی۔ رسول کریم ﷺ نے ( صحابہ سے) دریافت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں اس مقام پر کوئی بت تھا جس کی پرستش کی جاتی تھی؟ صحابہ نے عرض کیا کہ نہیں پھر آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا وہاں کفار کے میلوں میں سے کوئی میلہ لگتا تھا؟ صحابہ نے عرض کیا کہ نہیں! اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے ( اس شخص کو مخاطب) کر کے فرمایا کہ تم اپنی نذر کو پورا کرو، نیز ابن آدم اس چیز کی نذر کو پورا کرنا بھی ضروری نہیں ہے جو اس کی ملکیت میں نہ ہو۔ ( ابوداؤد)

تشریح
اس جگہ کے بارے میں آپ ﷺ کے سوال کا مقصد یہ تھا کہ اگر وہاں زمانہ جاہلیت میں کوئی بت تھا جس کی پرستش کی جاتی تھی یا وہاں کفار کا کوئی میلہ لگتا تھا جہاں وہ سیر تماشے اور ناچ گانے میں مشغول ہوتے تھے تو اس صورت میں اس شخص کو اپنے نذر پوری کرنے کی اجازت نہ دی جائے تاکہ اس طرح کفار کے ساتھ مشابہت نہ ہو لیکن جب آپ ﷺ کو معلوم ہوا کہ وہاں ان دونوں میں سے کوئی چیز بھی نہیں تھی تو آپ ﷺ نے اس شخص کو نذر پوری کرنے کا حکم دیا۔
Top