مشکوٰۃ المصابیح - نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان - حدیث نمبر 3419
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده رضي الله عنه أن امرأة قالت : يا رسول الله إني نذرت أن أضرب على رأسك بالدف قال : أوفي بنذرك . رواه أبو داود وزاد رزين : قالت : ونذرت أن أذبح بمكان كذا وكذا مكان يذبح فيه أهل الجاهلية فقال : هل كان بذلك المكان وثن من أوثان الجاهلية يعبد ؟ قالت : لا قال : هل كان فيه عيد من أعيادهم ؟ قالت : لا قال : أوفي بنذرك
دف بجانے کی نذر کو پورا کرنے کا حکم
اور حضرت ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے ( حضرت عبداللہ ابن عمر) سے رویت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! میں نے نذر مانی ہے کہ ( جب آپ ﷺ جہاد سے واپس تشریف لائیں تو) تو میں آپ ﷺ کے سامنے دف بجاؤں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اپنی نذر پوری کرو۔ ( ابوداؤد) اور رزین نے اس روایت میں یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں کہ اس عورت نے ( یہ بھی) کہا کہ اور میں نے یہ نذر مانی ہے کہ میں فلاں فلاں مقام پر جہاں زمانہ جاہلیت میں لوگ ذبح کرتے تھے، جانور ذبح کروں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا وہاں زمانہ جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا؟ اس عورت نے کہا کہ نہیں۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا وہاں کفار کے میلوں میں سے کوئی میلہ لگتا تھا؟ عورت نے کہا کہ نہیں! آپ ﷺ نے فرمایا اپنی نذر پوری کرو۔

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دف بجانا مباح ہے! جو حضرات یہ فرماتے ہیں کہ صرف اس چیز کی نذر ماننی چاہئے جو اطاعت ( یعنی بھلائی) کی قسم سے ہو وہ اس حدیث کے بارے میں یہ وضاحت کرتے ہیں کہ اگرچہ دف بجانا کوئی اطاعت نہیں ہے بلکہ مباح ہے لیکن اس عورت نے چونکہ آنحضرت ﷺ کے لئے اپنے جذبات عقیدت و محبت کی بنا پر یہ نذر مانی تھی کہ آنحضرت ﷺ جب جہاد کے معرکوں سے فارغ ہو کر خیر و عافیت کے ساتھ واپس تشریف لائیں گے تو میں دف بجاؤں گی، لہٰذا اس اعتبار سے اس دف کا بجانا بھی گویا طاعت کی قسم سے ہوا۔
Top