مشکوٰۃ المصابیح - نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان - حدیث نمبر 3422
وعن ابن عباس : أن أخت عقبة بن عامر رضي الله عنهم نذرت أن تحج ماشية وأنها لا تطيق ذلك فقال النبي صلى الله عليه و سلم : إن الله لغني عن مشي أختك فلتركب ولتهد بدنة . رواه أبو داود والدارمي وفي رواية لأبي داود : فأمرها النبي صلى الله عليه و سلم أن تركب وتهدي هديا وفي رواية له : فقال النبي صلى الله عليه و سلم : إن الله لا يصنع بشقاء أختك شيئا فلتركب ولتحج وتكفر يمينها (2/283) 3442 - [ 17 ] ( لم تتم دراسته ) وعن عبد الله بن مالك أن عقبة بن عامر سأل النبي صلى الله عليه و سلم عن أخت له نذرت أن تحج حافية غير مختمرة فقال : مروها فلتختمر ولتركب ولتصم ثلاثة أيام . رواه أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي
نذر کا کوئی جزو اگر ناممکن العمل ہو تو اس کا کفارہ
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ عقبہ ابن عامر کی بہن نے یہ نذر مانی کہ وہ پیدل حج کریں گی لیکن وہ اس کی طاقت نہیں رکھتی تھی چناچہ نبی کریم ﷺ نے ( حضرت عقبہ سے) فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کو تمہاری بہن کے پیدل جانے کی پرواہ نہیں ہے، لہٰذا انہیں چاہئے کہ وہ ( جب پیدل نہ چل سکیں تو) سوری پر بیٹھ جائیں اور اس کے مال کا کفارہ کے طور پر بدنہ ذبح کریں ( حنفیہ کے نزدیک بدنہ سے مراد اونٹ یا گائے ہے۔ لیکن شوافع کے نزدیک بدنہ کا اطلاق صرف اونٹ پر ہوتا ہے) ( ابوداؤد، دارمی) ابوداؤد ہی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ چناچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری بہن کو اس کی مشقت کا کوئی ثواب نہیں دے گا ( یعنی تمہاری بہن جو اس طرح مشقت برداشت کریں گی اس کا انہیں کچھ ثواب نہیں ملے گا) لہٰذا انہیں چاہئے کہ وہ ( جب پیدل نہ چل سکیں تو) سوری پر بیٹھ کر حج کا سفر پورا کریں اور اپنی قسم کا کفارہ دیں۔

تشریح
ہدی اس جانور کو کہتے ہیں کہ جو ذبح کرنے کے لئے حرم بھیجا جائے! ہدی کا کم سے کم درجہ بکری ہے اور اس کا اعلیٰ درجہ بدنہ یعنی اونٹ یا گائے ہے۔ اس حدیث میں بدنہ ذبح کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ بطور استحباب ہے! قاضی کہتے ہیں کہ پیادہ پا حج کے لئے جانا چونکہ طاعات کی قسم سے ہے اس لئے اس کی نذر پوری کرنا واجب ہے اور اس کے ساتھ ہر وہ عمل لاحق ہوجاتا ہے جس کو ترک کرنا جائز نہیں ہے الاّ یہ کے کوئی شخص اس کی ادائیگی سے عاجز ہو۔ لہٰذا ترک کی صورت میں فدیہ ( کفارہ) واجب ہوا گا۔ اب اس بارے میں اختلاف ہے کہ بطور کفارہ کس جانور کو ذبح کرنا واجب ہوگا؟ چناچہ حضرت علی کا قول ہے کہ اس حدیث کے بموجب بدنہ واجب ہوگا، بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ جس طرح میقات سے تجاوز کر جانے کی وجہ سے بکری واجب ہوتی ہے اسی طرح اس صورت میں بھی بکری واجب ہوگی، انہوں نے اس حدیث میں بدنہ ذبح کرنے کے حکم کو استحباب پر محمول کیا ہے، یہی قول امام مالک کا بھی ہے۔ بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ حضرت امام شافعی کا قول بھی یہی ہے۔ اور اپنے قسم کا کفارہ دیں کے بارے میں زیادہ صحیح یہ ہے کہ اس حکم میں کفارہ سے مراد کفارہ جنایت ہے اور وہ ہدی ہے، یا روزہ ہے جو ہدی کا قائم مقام ہے اور جس کا ذکر بھی اگلی حدیث میں کیا گیا ہے کفارہ کے با رہے میں یہ تاویل اس لئے کی جاتی ہیں تاکہ یہ روایت اس بارے میں منقول دوسری روایتوں کے مطابق ہوجائے، حاصل یہ کہ یہاں قسم کے کفارہ سے وہ کفارہ مراد نہیں ہے جو قسم توڑنے کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے۔ اور حضرت عبداللہ ابن مالک کہتے ہیں کہ جب عقبہ ابن عامر نے ( سفر حج کے دوران) اپنی بہن کے بارے میں نبی کریم ﷺ سے پوچھا جنہوں نے نذر مانی تھی کہ وہ پیادہ پا، ننگے پاؤں اور ننگے سر حج کو جائیں گی، تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ان کو حکم دو کہ وہ اپنا سر ڈھانکیں اور سواری پر بیٹھ جائیں، نیز انہیں چاہئے کہ وہ تین روزے رکھیں۔ ( ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی) تشریح سر ڈھانکنے کا حکم اس لئے دیا گیا کہ عورت کا سر اور بال ستر ہیں۔ یعنی اس کے جسم کے یہ وہ حصے ہیں جس کو چھپانا اس پر واجب ہے اور اس کا کھلا رکھنا گناہ ہے اور سواری پر بیٹھنے کا حکم اس لئے دیا گیا کہ وہ پیدل چلنے سے عاجز تھیں اور اس کی وجہ سے وہ سخت مشقت و تکلیف میں مبتلا تھیں۔ چونکہ اوپر کی حدیث میں ہدی کا ذکر ہے اس لئے یہاں وہ تین روزے رکھیں کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر وہ ہدی ( یعنی جانور ذبح کرنے) سے عاجز ہوں تو تین روزے رکھ لیں۔ یا پھر روزے رکھنے کے لئے اس لئے فرمایا گیا کہ قسم کے کفارہ کی جو کئی قسمیں ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص کفارہ کی قسموں سے عاجز ہو تو وہ تین روزے رکھے اب ان تین روزوں کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر تین روزے قسم کے کفارہ کے طور پر رکھے جائیں تو تین دن پے در پے رکھنے واجب ہیں اس کے علاوہ کی صورت میں اختیار ہے کہ جس طرح چاہے رکھے گا۔
Top