مشکوٰۃ المصابیح - قصاص کا بیان - حدیث نمبر 3438
وعنه قال : كسرت الربيع وهي عمة أنس بن مالك ثنية جارية من الأنصار فأتوا النبي صلى الله عليه و سلم فأمر بالقصاص فقال أنس بن النضر عم أنس بن مالك لا والله لا تكسر ثنيتها يا رسول الله فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : يا أنس كتاب الله القصاص فرضي القوم وقبلوا الأرش فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن من عباد الله من لو أقسم على الله لأبره
جو جیسا کرے اس کو ویسی ہی سزا دو
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ ربیع نے جو حضرت انس ابن مالک کی پھوپھی تھیں، ایک انصاری لڑکی کے دانت توڑ دئیے اس لڑکی کے رشتہ دار استغاثہ لے کر، نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آنحضرت ﷺ نے بدلہ لینے کا حکم فرمایا (یعنی یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ ربیع کے بھی دانت توڑے جائیں) انس ابن نضر نے جو انس بن مالک کے چچا تھے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ایسا نہیں ہوگا، اللہ کی قسم ربیع کے دانت نہیں توڑے جائیں گے آنحضرت نے فرمایا۔ انس! اللہ کا حکم بدلہ لینے کا ہے لیکن (خدا نے ایسا کیا) کہ لڑکی کے خاندان والے (ربیع کے دانت نہ توڑے جانے پر) راضی ہوگئے اور دیت (مالی معاوضہ) قبول کرلیا چناچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ بعض بندگان اللہ ایسے ہیں کہ اگر وہ کسی بات پر اللہ کی قسم کھا بیٹھیں تو خداوند تعالیٰ ان کی قسم پوری کرتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
ربیع، انس اور مالک یہ تینوں بھائی تھے ان کے والد کا نام نضر تھا، مالک کے لڑکے کا نام انس تھا گویا چچا اور بھتیجے دونوں ایک نام سے موسوم تھے اس حدیث میں جن ربیع کا ذکر ہے وہ انس یعنی، حضرت انس ابن مالک کی پھوپھی تھیں اور دوسرے انس یعنی حضرت انس بن نضر کی بہن تھیں۔ حضرت انس ابن نضر کا یہ کہنا کہ یا رسول اللہ! ایسا نہیں ہوگا، رسول کریم ﷺ کے حکم کی مخالفت اور آپ کے فیصلہ کو ماننے کا انکار کرنے کے طور پر نہیں تھا بلکہ اس کی بناحق تعالیٰ کے اس فضل و کرم کی توقع اور امید پر تھی کہ وہ مدعی کو راضی اور ان کے دل میں ڈال دے گا کہ وہ قصاص (یعنی بدلہ لینے) کو معاف کردیں، چناچہ حق تعالیٰ نے ان کی امید و توقع کو پورا کیا اور لڑکی کے خاندان والوں نے دیت قبول کر کے قصاص کو معاف کردیا۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ نے حضرت انس ابن نضر کے بارے میں یہ مدحیہ کلمات ارشاد فرمائے کہ حضرت انس ابن نضر اللہ کے ان بندگان خاص میں سے ہیں جو اگر کسی بات پر قسم کھالیتے ہیں تو اللہ ان کو حانث نہیں کرتا بلکہ ان کی اس بات کو پورا کرتا ہے اور قسم کو سچی کرتا ہے۔ اے انس اللہ کا حکم بدلہ لینے کا ہے اس ارشاد سے آنحضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان آیت (وکتبنا علیہم فیہا ان النفس بالنفس) تا۔ (والسن بالنسن) کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ کسی ایسی بات پر قسم کھانا جائز ہے جس کے واقع ہونے کا قسم کھانے والے کو گمان ہو، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ کسی شخص کے منہ پر اس کی تعریف و توصیف کا اظہار کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس کی وجہ سے اس شخص کے کسی فتنہ و برائی میں مبتلا ہوجانے کا خوف نہ ہو اور تیسری بات یہ ثابت ہوئی کہ قصاص کو معاف کردینا مستحب ہے۔
Top