مشکوٰۃ المصابیح - جس پر حد جاری کی جائے اس کے حق میں بد دعا نہ کرنے کا بیان - حدیث نمبر 3581
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه أن رجلا اسمه عبد الله يلقب حمارا كان يضحك النبي صلى الله عليه و سلم وكان النبي صلى الله عليه و سلم قد جلده في الشراب فأتي به يوما فأمر به فجلد فقال رجل من القوم : اللهم العنه ما أكثر ما يؤتى به فقال النبي صلى الله عليه و سلم : لا تلعنوه فو الله ما علمت أنه يحب الله ورسوله . رواه البخاري
کسی گنا ہگار پر لعنت بھیجنا جائز ہے
حضرت عمر فرماتے ہیں کہ ایک شخص تھا جس کا نام عبداللہ تھا مگر اس کی بیوقوفی کی وجہ سے اس کو حمار یعنی گدھا کہا جاتا تھا وہ اپنی حماقت آمیز باتوں سے نبی کریم ﷺ کو ہنسایا کرتا تھا نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ شراب پینے کے جرم میں اس پر حد جاری فرما چکے تھے پھر وہ ایک اور دن آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے اس کو کوڑے مارنے کا حکم دیا اور اس کو کوڑے مارے گئے حاضرین مجلس میں سے ایک شخص نے کہا اے اللہ تیری لعنت ہو، اس کو کتنی کثرت کے ساتھ بار بار شراب پینے کے جرم میں پکڑ کر لایا جاتا ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس پر لعنت نہ بھیجو اللہ کی قسم میں یہ جانتا ہوں کہ یہ شخص اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے۔ (بخاری)

تشریح
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ کسی گنہگار کو مخصوص کر کے اس پر لعنت بھیجنا جائز نہیں ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت قرب الہٰی کا سبب ہے لہٰذا اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت رکھنے والے پر لعنت بھیجنا کسی حالت میں بھی جائز نہیں ہے کیونکہ لعنت کے معنی ہیں اللہ کی رحمت سے دور کرنا۔ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک ایسے شخص کو پیش کیا گیا جس نے شراب نوشی کا ارتکاب کیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا اس کی پٹائی کرو چناچہ ہم میں سے بعض نے اس کو اپنے ہاتھ سے مارا بعض نے اپنے جوتوں سے مارا اور بعض نے اپنے کپڑے کا کوڑا بنا کر اس سے مارا جب وہ شخص واپس جانے لگا تو بعض لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تجھ کو ذلیل ورسوا کرے آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا اس طرح نہ کہو اور اس پر غالب ہونے میں شیطان کی مدد نہ کرو۔ (بخاری)
Top