مشکوٰۃ المصابیح - امارت وقضا کا بیان - حدیث نمبر 3639
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ويل للأمراء ويل للعرفاء ويل للأمناء ليتمنين أقوام يوم القيامة أن نواصيهم معلقة بالثريا يتجلجلون بين السماء والأرض وأنهم لم يلوا عملا . رواه في شرح السنة ورواه أحمد وفي روايته : أن ذوائبهم كانت معلقة بالثريا يتذبذبون بين السماء والأرض ولم يكونوا عملوا على شيء
قیامت کے دن امراء وحکام کی حسرت ناکی
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا افسوس ہے امراء و حکام پر، افسوس ہے چودھریوں پر، افسوس ہے امینوں پر! بہت سے لوگ قیامت کے دن آرزو کریں گے کہ (کاش دنیا میں) ان کی پیشانیوں کے بال ثریا میں باندھ کر ان کو لٹکا دیا جاتا اور زمین و آسمان کے درمیان جھولتے رہتے لیکن ان کو کسی کام کی ولایت وسرداری نہ ملتی۔ (شرح السنۃ)

تشریح
لفظ ویل کے معنی ہیں وہ غم، ہلاکت اور دکھ و تکلیف جو عذاب کی وجہ سے۔ اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ ویل دوزخ کے ایک (نالے) کھائی کا نام ہے۔ چناچہ منقول ہے کہ ویل دوزخ کا ایک نالا ہے جس میں کافر چالیس برس تک گرتا لڑھکتا چلا جائے گا۔ مگر تہ تک نہیں پہنچے گا۔ امین اس کار پرداز کو کہتے ہیں کہ جس کو حاکم نے صدقات اور خراج محصولات لینے پر مقرر کیا ہو۔ یا وہ مسلمانوں کے دوسرے قسم کے مال و اسباب کا نگران ومحافظ بنایا گیا ہو۔ اور یا حاکم کے علاوہ کسی اور شخص نے اس کو اپنے مال کا امانت دار بنایا ہو۔ ثریا ان پانچ ستاروں کا مجموعہ کا نام ہے جو پاس پاس رہتے ہیں اور جن میں روشنی کم ہوتی ہے۔ پیشانی کے بل دریا میں باندھ کر لٹکانا دراصل ذلت و خواری کی تمثیل ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جب امراء و حکام قیامت کے دن یہ دیکھیں گے کہ دنیا میں ہمیں لوگوں میں جو برتری وحاکمیت، شان و شوکت اور عزت و ریاست حاصل تھی آج اس کے بدلے میں ہمیں یہاں کی ذلت و خواری اور سبکی وسزا مل رہی ہے تو وہ آرزو کریں گے کہ کاش ہمیں دنیا میں لوگوں پر وہ برتری و فوقیت اور عزت اور ریاست حاصل نہ ہوتی بلکہ ان کے مقابلہ میں ذلت و خواری اور کمتری ملتی جو یہاں کی ذلت و خواری سے کہیں کم وہل کی ہوتی یہاں تک کہ ہمارے سر کے بالوں کو کسی بلند چیز سے باندھ کر ہمیں معلق کردیا جاتا اور لوگ ہماری عزت و ریاست اور رفعت کی بجائے اس ذلت وکمتری کا مشاہدہ کرتے حدیث کا مقصد یہ تلقین کرنا ہے کہ اگر کسی شخص کے ذمہ کوئی خدمت سپرد کی جائے یا اس کو کسی جگہ کا یا کچھ لوگوں کا امیر و والی بنایا جائے تو وہ عدل انصاف کرے کہ عادل ومنصف امیر وحاکم کے حق میں بہت زیادہ ثواب کی بشارتیں ہیں اور نہ کسی کے ساتھ ظلم وجور کا معاملہ کرے اور نہ کسی کی حق تلقی کرے کہ ظلم وجبر اور حق تلفی کرنے والوں کا یہ حشر ہوگا جو حدیث میں مذکور ہوا۔ امیر وچودھریوں اور امینوں پر افسوس کا اظہار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ مناصب اور ذمہ داریاں عام طور پر لغزش میں مبتلا کردیتی ہیں اور باطل کی طرف مائل کرتی ہیں اور ان کے امور کی انجام دہی میں عدل و انصاف اور راہ راست پر جمے رہنے کے تقاضے کم ہی پورے ہوتے ہیں ہاں جن کو حق تعالیٰ کی حفاظت ومدد اور توفیق نیک حاصل ہوتی ہے اور وہ اپنے مناصب کی ذمہ داریوں کو ان کے شرائط کے مطابق پورا کرتے ہیں۔
Top