مشکوٰۃ المصابیح - قضیوں اور شہادتوں کا بیان - حدیث نمبر 3715
وعن عوف بن مالك : أن النبي صلى الله عليه و سلم قضى بين رجلين فقال المقضي عليه لما أدبر : حسبي الله ونعم الوكيل فقال النبي صلى الله عليه و سلم : إن الله تعالى يلوم على العجز ولكن عليك بالكيس فإذا غلبك أمر فقل : حسبي الله ونعم الوكيل . رواه أبو داود
اپنے معاملے مقدمے میں دانائی وہوشیاری کو ملحوظ رکھو
اور حضرت عوف ابن مالک کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم ﷺ نے دو شخصوں کے درمیان ایک مقدمہ کا فیصلہ دیا (جو ایک شخص کے خلاف اور دوسرے شخص کے حق میں تھا۔ چناچہ مقدمہ کا فیصلہ جس شخص کے خلاف ہوا تھا اس نے مجلس نبوی ﷺ سے اٹھ کر) واپس جاتے ہوئے کہا کہ (حسبی اللہ ونعم الوکیل) یعنی مجھ کو میرا للہ کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے نبی کریم ﷺ نے یہ (سن کر) فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نادانی و لاپرواہی پر ملامت کرتا ہے، تم کو چالاکی اور ہوشیاری ضروری ہے اگر تم پر کوئی مصیبت آپڑے تو (حسبی اللہ ونعم الوکیل) کہو۔ (ابو داؤد)

تشریح
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص نے کسی دوسرے شخص سے کچھ قرض لیا ہوگا اور وہ قرض اس نے ادا بھی کردیا ہوگا لیکن اس سے یہ نادانی اور حماقت ہوئی کہ اس نے قرض واپس کرتے وقت قرض خواہ سے کوئی رسید نہ لی اور نہ کسی کو گواہ کیا، آخر مدعی (قرض خواہ) نے بارگاہ رسالت میں اس شخص پر دعوی کردیا چونکہ اس ( مدعی) نے قرض دینے کا ثبوت پیش کردیا ہوگا لیکن یہ شخص (مدعا علیہ) واپسی قرض کا کوئی ثبوت پیش نہ کرسکا ہوگا اس لئے مقدمہ فیصلہ اس کے خلاف ہوا اور مدعی نے ڈگری حاصل کرلی۔ جب وہ مقدمہ ہار کر دربار رسالت سے نکلا تو اس نے ازراہ غم و حسرت (حسبی اللہ ونعم الوکیل) کہا اور اس طرح اس نے یہ اشارہ کیا کہ مدعی نے مجھ سے ناحق مال لے لیا اور میں خواہ مخواہ نقصان اٹھا بیٹھا۔ اس پر رسول کریم ﷺ نے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے کاروبار زندگی اور اپنے معاملات میں لاپرواہی نادانی اور غفلت و کوتاہی کوئی اچھی چیز نہیں ہے بلکہ ایسا کرنے والے پر اللہ تعالیٰ ملامت کرتا ہے، پھر آپ نے تنبیہ فرمائی کہ تم کو لازم ہے کہ اپنے کاروبار اور اپنے معاملات میں ہوشیار وچوکس رہو اور احتیاط و دانائی اختیار کرو۔ حاصل یہ کہ غفلت و کوتاہی سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا کیونکہ حق تعالیٰ نے انسان کو عقل سلیم کی جس دولت سے نوازا ہے اس کا صحیح مقتضٰی یہی ہے کہ بندہ اپنے تمام دینی و دنیاوی معاملات میں دانائی و ہوشیاری کو ملحوظ رکھے لہٰذا اس معاملہ میں تم سے جو کوتاہی و غفلت سرزد ہوئی ہے اس کو اپنے عجز پر محمول کر کے (حسبی اللہ ونعم الوکیل) نہ کہو بلکہ آئندہ کے لئے اس بات کا عہد کرلو کہ پھر کبھی اس طرح کی غلفت و کوتاہی نہیں کرو گے اور احتیاط وہوشیاری کو بہر صورت ملحوظ رکھو گے۔ طیبی یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے ارشاد کے ذریعہ گویا اس شخص پر یہ واضح کیا کہ لازم تو یہ تھا کہ تم اپنے معاملے میں ہوشیار رہتے اور کسی کو گواہ بنا کر یا اس کے مانند کوئی ثبوت رکھ کر کوتاہی و غفلت میں مبتلا نہ ہوتے تاکہ جب تمہارا مقدمہ پیش ہوتا اور تم فیصلے کے لئے یہاں حاضر ہوتے تو گواہوں اور ثبوت کے ذریعہ مدعی کو ناحق ثابت کرنے پر قادر ہوتے مگر اب جب کہ تم اپنی غفلت و کوتاہی کی وجہ سے مدعی کے دعوی کو ناحق ثابت کرنے سے عاجز ہو تو (حسبی اللہ ونعم الوکیل) کہتے ہو حالانکہ (حسبی اللہ ونعم الوکیل) اس وقت کہا جاتا ہے جب کہ حصول مقصد کی تمام راہیں مسدود ہوجاتی ہیں اور اپنی تمام تدابیر و احتیاط کے باوجود کوئی چارہ کار نہیں رہ جاتا، لہٰذا یہ ذہن نشین رہے کہ جب کوئی معاملہ کیا جائے اس میں پوری پوری احتیاط اور ہوشیاری کو ملحوظ رکھا جائے اور جب تمام تر امکانی احتیاط وہوشیاری کے باوجود حصول مقصد کا کوئی راستہ ہاتھ نہ آئے اور اس طرح عجز ومعذوری کے درجہ پر پہنچ جائے تو اس وقت (حسبی اللہ ونعم الوکیل) کہے۔
Top