مشکوٰۃ المصابیح - آداب سفر کا بیان - حدیث نمبر 3810
عن كعب بن مالك : أن النبي صلى الله عليه و سلم خرج يوم الخميس في غزوة تبوك وكان يحب أن يخرج يوم الخميس . رواه البخاري
جہاد کے لئے جمعرات کے دن نکلنا آنحضرت ﷺ کے نزدیک پسندیدہ تھا
حضرت کعب ابن مالک راوی ہیں کہ نبی کریم غزوہ تبوک کے لئے جمعرات کے دن روانہ ہوئے اور آنحضرت ﷺ اس کو پسند فرماتے تھے کہ جہاد کے سفر کی ابتداء جمعرات کے دن سے کریں۔ ( بخاری)

تشریح
تبوک ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ اور دمشق کے درمیانی راستہ پر خیبر اور العلاء کے خط پر واقع ہے، یہ پہلے شام کے علاقہ میں تھا حجاز کی حدود میں ہے۔ مدینہ سے اس کا فاصلہ ٤٦٥ میل ہے، اس وقت یہ جگہ مدینہ سے ایک مہینہ کی مسافت کے بقدر تھی، آنحضرت ﷺ ٩ ھ میں اس جگہ پر فوج لے کر گئے تھے اسی کو غزوہ تبوک کہا جاتا ہے، یہ آنحضرت ﷺ کا آخری غزوہ تھا۔ ابوداؤد نے حضرت کعب ابن مالک کی جو روایت نقل کی ہے اس میں یوں ہے کہ ایسا کم ہوتا تھا کہ آنحضرت ﷺ جہاد کے لئے اپنے سفر کی ابتداء جمعرات کے دن سے نہ کرتے ہوں۔ آنحضرت ﷺ جہاد کے سفر میں جمعرات ہی کے دن روانہ ہونا کیوں پسند کرتے تھے؟ اس میں کئی احتمال ہیں ایک تو یہ کہ چونکہ بندوں کے نیک اعمال جمعرات ہی کے دن سے اللہ تعالیٰ تک اٹھائے جاتے ہیں اس لئے آنحضرت ﷺ یہ چاہا کرتے تھے کہ جہاد کا عمل آج ہی اللہ تعالیٰ تک اٹھایا جائے کہ وہ افضل اعمال ہے اور دوسرے یہ کہ خمیس لشکر کو بھی کہتے ہیں ( اور جمعرات کا دن بھی یوم الخمیس کہلاتا ہے) لہٰذا آپ جمعرات کے دن سفر جہاد کی ابتداء کر کے یہ فال نیک لیتے تھے کہ جس لشکر کے مقابلہ پر جا رہے ہیں اس پر فتح حاصل ہوگی۔ بہر کیف اس سلسلے میں سنت نبوی ﷺ کے مطابق جو چیز ہے وہ یہی ہے کہ جب جہاد کے لئے سفر اختیار کیا جائے تو جمعرات کے دن روانگی عمل میں لائی جائے لیکن اصل مدار استخارہ اور تفویض اور توکل پر ہے۔ یہ واضح رہے کہ سلف ( صحابہ) سے یہ قطعًا منقول نہیں ہے کہ وہ سفر کی ابتداء کرنے کے سلسلے میں نجوم کا اتباع کرتے ہوں اور روانگی سفر کے لئے وہی ساعت اختیار کرتے ہوں جو حوتش کا حساب ظاہر کرتا ہو! حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک دن ان کے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص سے کہا کہ تم سفر میں فلاں روز جانا، فلاں روز روانہ نہ ہونا، یہ سن کر حضرت علی نے اس شخص سے فرمایا کہ اگر اس وقت میرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو میں ( اتنی غلط اور خلاف اسلام بات کہنے پر) تمہاری گردن اڑا دیتا، ہم حضرت ابوالقاسم محمد ﷺ کی خدمت میں (برابر) حاضر رہا کرتے تھے، ہم نے تو کبھی بھی آپ کی مجلس میں یہ ذکر ہوتے نہیں سنا کہ فلاں روز سفر کرنا چاہئے اور فلاں روز سفر نہ کرنا چاہئے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے قمر در عقرب اور محاق کے سلسلے میں جو کچھ روایت کیا جاتا ہے وہ پایہ صحت کو پہنچا ہوا نہیں ہے۔
Top