مشکوٰۃ المصابیح - قیدیوں کے احکام کا بیان - حدیث نمبر 3877
وعن أبي هريرة قال : بعث رسول الله صلى الله عليه و سلم خيلا قبل نجد فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له : ثمامة بن أثال سيد أهل اليمامة فربطوه بسارية من سواري المسجد فخرج إليه رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : ماذا عندك يا ثمامة ؟ فقال : عندي يا محمد خير إن نقتل تقتل ذا دم وإن تنعم تنعم على شاكر وإن كنت تريد المال فسل تعط منه ما شئت فتركه رسول الله صلى الله عليه و سلم حتى كان الغد فقال له : ما عندك يا ثمامة ؟ فقال : عندي ما قلت لك : إن تنعم تنعم على شاكر وإن تقتل تقتل ذا دم وإن كنت تريد المال فسل تعط منه ما شئت . فتركه رسول الله صلى الله عليه و سلم حتى كان بعد الغد فقال له : ما عندك يا ثمامة ؟ فقال : عندي ما قلت لك : إن تنعم تنعم على شاكر وإن تقتل تقتل ذا دم وإن كنت تريد المال فسل تعط منه ما شئت . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أطلقوا ثمامة فانطلق إلى نخل قريب من المسجد فاغتسل ثم دخل المسجد فقال : أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله يا محمد والله ما كان على وجه الأرض وجه أبغض إلي من وجهك فقد أصبح وجهك أحب الوجوه كلها إلي والله ما كان من دين أبغض إلي من دينك فأصبح دينك أحب الدين كله إلي و والله ما كان من بلد أبغض إلي من بلدك فأصبح بلدك أحب البلاد كلها إلي . وإن خيلك أخذتني وأنا أريد العمرة فماذا ترى ؟ فبشره رسول الله صلى الله عليه و سلم وأمره أن يعتمر فلما قدم مكة قال له قائل : أصبوت ؟ فقال : لا ولكني أسلمت مع رسول الله صلى الله عليه و سلم والله لا يأتيكم من اليمامة حبة حنطة حتى يأذن فيها رسول الله صلى الله عليه و سلم . رواه مسلم واختصره البخاري
سردار یمامہ کے اسلام لانے کا واقعہ
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک لشکر کو (جہاد کرنے کے لئے) بخد کی طرف روانہ کیا، لشکر کے لوگ (قبیلہ) بنو حنیفہ کے ایک شخص کو پکڑ کر (مدینہ) لائے جس کا نام ثمامہ ابن اثال تھا اور جو شہر یمامہ کا سردار تھا، اس شخص کو مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا گیا (تاکہ وہ بھاگ نہ سکے) رسول کریم ﷺ اس کے پاس تشریف لائے اور اس سے پوچھا کہ کہو ثمامہ! تمہارے پاس (کہنے سننے کو) کیا ہے؟ (یعنی بتاؤ تمہارا کیا حال ہے میرے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ کس طرح کا سلوک کروں گا؟ ) ثمامہ نے کہا کہ میرے پاس بھلائی ہی بھلائی ہے یا میرے پاس بہت مال ہے، اگر آپ ﷺ (مجھ کو قتل کریں گے تو ایک خون والے شخص کو قتل کریں گے (جو قتل ہی کئے جانے کا مستحق ہے، ان الفاظ کے ذریعہ گویا ثمامہ نے اپنی تقصیر کا اعتراف و اقرار کیا، یا اس کے ان الفاظ کا یہ مطلب تھا کہ اگر آپ ﷺ مجھے قتل کردیں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کا خون رائیگاں نہیں جائے گا کیونکہ میری قوم میرا خون معاف نہیں کرے گی بلکہ آپ سے بدلہ لے گی، اس صورت میں اس نے گویا اپنی امارت اور اپنی ریاست و وجاہت کا دعوی کیا) اور اگر آپ (مجھے باعزت رہائی دے کر میرے ساتھ اچھا سلوک کریں گے تو ایک شخص ساتھ اچھا سلوک کریں گے جو شکر گذار وقدر دان سے (یعنی میں بھی اس اچھے سلوک کا آپ ﷺ کو بدلہ دوں گا) اور اگر آپ ﷺ مال چاہتے ہیں تو مانگیے، جتنا مال چاہیں گے دیا جائے گا۔ (یہ باتیں سن کر) آنحضرت ﷺ نے اس کو (اس حال پر) چھوڑ دیا جب دوسرا دن آیا تو آنحضرت ﷺ نے پھر سے پوچھا کہ (کہو ثمامہ! تمہارے پاس) کہنے سننے کو کیا ہے؟ اس نے کہا کہ میرے پاس وہی چیز ہے جو میں کہہ چکا ہوں کہ اگر آپ اچھا سلوک کریں گے تو ایک ایسے شخص کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے جو شکر گزار وقدردان ہے، اگر آپ قتل کریں گے تو ایک خون والے شخص کو قتل کریں گے اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو مانگیے جتنا مال چاہیں گے دیا جائے گا۔ آنحضرت ﷺ نے (اس دن بھی یہ سن کر) اس کو (اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ اور جب تیسرا دن آیا تو آپ ﷺ نے پھر اس سے پوچھا کہ (کہو ثمامہ تمہارے پاس کیا ہے؟ اس نے کہا وہی چیز ہے جو میں کہہ چکا ہوں کہ اگر آپ اچھا سلوک کریں گے تو ایک ایسے شخص کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے جو شکر گذار وقدر دان ہے، اگر قتل کریں گے تو ایک خون والے شخص کو قتل کریں گے اور اگر مال چاہتے ہیں تو مانگیے جتنا مال چاہیں گے دیا جائے گا، رسول کریم ﷺ نے (یہ سن کر) حکم دیا کہ ثمامہ کو رہا کردیا جائے۔ چناچہ (رہائی پانے کے بعد کچھ کہے سنے بغیر) کھجوروں کے ان درختوں (کے جھنڈ) میں چلا گیا جو مسجد نبوی ﷺ کے قریب تھے اور وہاں سے نہا دھو کر پھر مسجد نبوی میں آیا اور (آنحضرت ﷺ کے سامنے) کہا اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ یعنی میں (سچے دل کے اعتراف و اقرار کے ساتھ) گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور (پھر کہنے لگا کہ) اے محمد ﷺ اللہ کی قسم میرے نزدیک روئے زمین پر آپ ﷺ کے چہرے سے زیادہ نفرت انگیز کوئی چہرہ نہیں تھا لیکن اب آپ ﷺ کا چہرہ مبارک میرے نزدیک (دنیا کے) سارے چہروں سے زیادہ پیارا ہے، اللہ کی قسم! میرے نزدیک آپ ﷺ کے دین سے زیادہ نفرت انگیز کوئی دین نہیں تھا لیکن اب آپ ﷺ کا دین میرے نزدیک سارے دینوں سے زیادہ پیارا ہے اور اللہ کی قسم! میرے نزدیک آپ ﷺ کے شہر سے زیادہ نفرت انگیز کوئی شہر نہیں تھے لیکن اب میرے نزدیک سارے دنیا کے سارے شہروں سے زیادہ پیارا ہے۔ پھر (اس عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ) آپ ﷺ کے لشکر نے مجھے اس وقت گرفتار کیا تھا جب کہ میں عمرہ (کرنے کے لئے مکہ جانے کا ارادہ کر رہا تھا تو اب آپ ﷺ مجھ کو کیا حکم دیتے ہیں (آیا میں عمرہ کے لئے مکہ جاؤں یا نہیں؟ ) رسول کریم ﷺ نے (پہلے تو) اس کو بشارت دی کہ اسلام قبول کرلینے کی وجہ سے تمہیں شرف و عظمت انسانیت حاصل ہوگئی ہے اور تمہارے پہلے سارے گناہ بخش دیئے گئے ہیں) اور پھر ان کو عمرہ کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد ثمامہ جب (عمرہ کرنے کے لئے) مکہ پہنچے تو کسی کہنے والے نے ان سے کہا کہ تم تو بےدین ہوگئے ہو۔ ثمامہ نے جواب دیا کہ نہیں! میں نے رسول کریم ﷺ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ہے، میں بےدین نہیں ہوا ہوں اور (یاد رکھو! ) اللہ کی قسم! اب یمامہ سے تم کو گہیوں کا ایک دانہ بھی نہیں بھیجا جائے گا جب تک کہ رسول کریم ﷺ اس کی اجازت نہ دیں۔ (مسلم) اس روایت کو بخاری نے بھی اختصار کے ساتھ نقل کیا ہے۔
Top