مشکوٰۃ المصابیح - قیدیوں کے احکام کا بیان - حدیث نمبر 3883
عن عائشة رضي الله عنها قالت : لما بعث أهل مكة في فداء أسرائهم بعثت زينب في فداء أبي العاص بمال وبعثت فيه بقلادة لها كانت عند خديجة أدخلتها بها على أبي العاص فلما رآها رسول الله صلى الله عليه و سلم رق لها رقة شديدة وقال : إن رأيتم أن تطلقوا لها أسيرها وتردوا عليها الذي لها فقالوا : نعم وكان النبي صلى الله عليه و سلم أخذ عليه أن يخلي سبيل زينب إليه وبعث رسول الله صلى الله عليه و سلم زيد بن حارثة ورجلا من الأنصار فقال : كونا ببطن يأحج حتى تمر بكما زينب فتصحباها حتى تأتيا بها . رواه أحمد وأبو داود
جنگ بدر کے قیدیوں میں سے آنحضرت ﷺ کے داماد ابوالعاص کی رہائی کا واقعہ
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جب (جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو کفار مکہ پر غلبہ اور فتح عطا فرمائی اور ان میں سے کچھ کو قتل کر دئیے گئے اور کچھ قیدی بنا کر مدینہ لائے گئے اور پھر آنحضرت ﷺ نے ان کی رہائی کے بدلے میں مال طلب کیا تو) اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کی رہائی کا معاوضہ روانہ کیا، (آنحضرت ﷺ کی صاحبزادی) حضرت زینب نے بھی (اپنے شوہر) ابوالعاص کی رہائی کے بدلے میں کچھ مال بھیجا جس میں ان کا وہ ہار بھی تھا جو (پہلے) حضرت خدیجہ کے پاس تھا اور اس کو انہوں نے ابوالعاص کے ساتھ زینب کے نکاح کے وقت ان کو (جہیز میں) دیا تھا جب رسول کریم ﷺ نے وہ ہار دیکھا تو زنیب کے لئے آپ ﷺ پر رقت طاری ہوگئی (یعنی) اس وقت اپنی بیٹی حضرت زینب کی غربت و تنہائی کا احساس کر کے اور حضرت خدیجہ کی رفاقت کی یاد تازہ ہوجانے کی وجہ سے جن کے گلے میں وہ ہار رہتا تھا آپ ﷺ کا دل امنڈ آیا) اور آپ ﷺ نے (صحابہ سے) فرمایا کہ اگر تم مناسب سمجھو تو زینب کی خاطر اس کے قیدی (ابو العاص) کو (بلا معاوضہ) رہا کردو اور اس (زینب) کو اس کی (وہ سب) چیزیں (جو اس نے ابوالعاص کی رہائی کی لئے بھیجی ہیں) واپس کردو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ بہتر ہے (ہم زینب کا مال واپس کر کے ابوالعاص کو بلا معاوضہ رہا کردیتے ہیں) چناچہ (ابو العاص کو رہا کردیا گیا اور رہائی کے وقت) آنحضرت ﷺ نے ابوالعاص سے یہ عہد وعدہ لیا کہ وہ آپ ﷺ کے پاس زینب کے آنے کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالیں (یعنی آپ ﷺ نے ابوالعاص کو رہا کرتے وقت ان سے کہا کہ یہ پختہ وعدہ کرو کہ مکہ پہنچ کر زینب کو میرے پاس مدینہ آنے دو گے اور اس کا راستہ نہیں روگے) اور پھر رسول کریم ﷺ نے زید ابن حارثہ اور انصار میں سے ایک شخص کو (مکہ) روانہ کیا اور ان سے کہا کہ تم لوگ بطن یا جج میں ٹھہر جانا، جب زنیب (مکہ سے روانہ ہو کر) وہاں تمہارے پاس آجائے تو تم اس کے ساتھ ہوجانا اور (مدینہ) لے آنا۔ (احمد، ابوداؤد )

تشریح
آنحضرت ﷺ کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں اور ابوالعاص ابن ربیع جو عبدالعزی ابن عبد شمس ابن عبد مناف کے پوتے تھے، ام المؤمنین حضرت خدیجہ کے بھانجے تھے اور حضرت زنیب کے شوہر ہونے کی وجہ سے داماد بھی تھے۔ حضرت خدیجہ، آنحضرت ﷺ سب سے پہلی زوجہ مطہرہ ہیں، آپ ﷺ کی ساری اولاد علاوہ ابراہیم کے حضرت خدیجہ ہی کے بطن سے تھی۔ ابراہیم جن کا کم سنی میں انتقال ہوگیا تھا حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے تھے۔ حضرت زینب جو ایک کافر یعنی ابوالعاص کے نکاح میں تھیں تو اس کا سبب یہ تھا کہ اس وقت مسلمان عورت کا کافر مرد کے ساتھ نکاح جائز تھا، نیز مکہ سے حضرت زینب کو لانے کے لئے آنحضرت ﷺ کی طرف سے ایسے دو آدمیوں کا بھیجا جانا جو حضرت زینب کے شرعی محرم نہیں تھے ایک بالکل مخصوص نوعیت کا معاملہ تھا اور وہ ایک ایسی صورت تھی جو ( امن) کی صورت کہلائی جاسکتی ہے کہ حضرت زینب چونکہ صاحبزادی رسول تھیں اس لئے ان کے ساتھ کسی غیر محرم کا ہونا کسی قسم کے شک وشبہ سے بالا تر تھا اور کسی خوف و خطرہ کے پیدا ہونے کا سوال نہیں تھا۔ ویسے یہ ایک عام مسئلہ ہے کہ عورت کو کسی نا محرم کے ساتھ سفر کرنا جائز نہیں ہے بطن یا حج ایک جگہ کا نام تھا جو مکہ سے تقریبا آٹھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس لفظ یا جج کو صاحب قاموس نے یا اور دونوں جیم کے ساتھ یعنی یا جج لکھا ہے اور علماء نے اس کو نون اور یا و جیم کے ساتھ یعنی ناجج بھی نقل کیا ہے چناچہ مشکوۃ المصابیح کے اکثر قدیم نسخوں میں یہ لفظ ناجج ہی مذکور ہے۔ حضرت زینب جب مکہ سے مدینہ آگئیں تو ابوالعاص مکہ ہی میں رہے اور کفر کی حالت پر قائم رہے، کچھ دنوں کے بعد ان کو تجارت کی غرض سے شام کا سفر کرنا پڑا، جب مدینہ کے مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ ابوالعاص اس سفر میں مدینہ کے قریب سے گذرنے والے ہیں تو انہوں نے یہ اسکیم بنائی کہ ابوالعاص جیسے ہی مدینہ کے علاقہ میں داخل ہوں ان کا سارا مال چھین لیا جائے، اس اسکیم کی خبر حضرت زینب کو پہنچی تو ان کا دل شوہر کی محبت میں بےتاب ہوگیا، فورًا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا مسلمانوں میں سے کسی ایک کے عہد امان کا اعتبار نہیں ہے۔ حضرت زینب نے کہا کہ تو پھر یا رسول اللہ ﷺ! آپ ﷺ گواہ رہئے کہ میں ابوالعاص کو عہد امان دیتی ہوں۔ جب صحابہ نے یہ حال دیکھا تو ان کے لئے اپنی اسکیم پر عمل کرنا قطعًا ممکن نہیں رہا تاہم وہ بغیر ہتھیار واسلحہ کے مدینہ کے قریب ابوالعاص کی گزر گاہ پر پہنچے اور ان سے ملے تو کہا کہ ابوالعاص تم قریش کے ایک معزز شریف اور صاحب حیثیت فرد ہو اور پیغمبر اسلام کے چچا کے بیٹے بھی ہو ( اس نسبت سے تمہارے حق میں اس سے بہتر اور کوئی راہ نہیں ہے کہ) تم مسلمان ہوجاؤ تاکہ ( تمہیں آخرت کی فلاح ونجات تو ملے ہی گی) تمہارا یہ سب مال بھی تمہارے ہی پاس رہے۔ ابوالعاص نے ( یہ سن کر) کہا تم نے جو یہ کہا ہے ( کہ مسلمان ہوجانے کی وجہ سے مال محفوظ رہے گا) تو یہ ایک قطعی نامناسب اور غیرموزوں بات ہے میں اس سے پناہ مانگتا ہوں کہ اپنے اسلام کو مال و دولت ( کی کثافت) سے گندہ کروں! اس کے بعد ابوالعاص مکہ روانہ ہوگئے اور وہاں پہنچ کر لوگوں کا مال ان کے سپرد کیا اور پھر ( سب کو جمع کر کے) کہا کہ مکہ والو! تم لوگوں کے مال تمہارے پاس پہنچ گئے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، پہنچ گئے۔ پھر ابوالعاص نے ان کے سامنے اعلان کیا کہ تم سب گواہ رہو! میں مسلمان ہوگیا ہوں اشھدان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد الرسول اللہ۔ اس کے بعد حضرت ابوالعاص نے مکہ میں اپنا گھر بار، دوست عزیز اور مال و اسباب سب کچھ چھوڑ کر راہ ہجرت اختیار کی اور مدینہ پہنچ کر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے، آنحضرت ﷺ نے بکمال محبت والفت ان کو خوش آمدید کہا اور حضرت زینب کو ان کی سپردگی میں دے دیا۔ اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ابوالعاص کے مدینہ پہنچنے پر حضرت زینب سے ان کا دوبارہ ( از سر نو) نکاح کیا تھا یا پہلا ہی نکاح باقی رکھا تھا۔ آنحضرت ﷺ کو ابوالعاص سے بہت زیادہ تعلق تھا، خاص طور سے ان کے مسلمان ہوجانے کے بعد تو آپ ان سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور ان سے بہت خوش رہا کرتے تھے۔ وہ حضرت ابوبکر صدیق کے دور خلافت میں جنگ یمامہ کے دوران شہید ہوئے۔
Top