مشکوٰۃ المصابیح - امان دینے کا بیان - حدیث نمبر 3889
عن أم هانئ بنت أي طالب قالت : ذهبت إلى رسول الله عام الفتح فوجدته يغتسل وفاطمة ابنته تستره بثوب فسلمت فقال : من هذه ؟ فقلت : أنا أم هانئ بنت أبي طالب فقال : مرحبا بأم هانئ فلما فرغ من غسله قام فصلى ثماني ركعات ملتحفا في ثوب ثم انصرف فقلت : يا رسول الله زعم ابن أمي علي أنه قاتل رجلا أجرته فلان بن هبيرة فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : قد أجرنا من أجرت يا أم هانئ قالت أم هانئ وذلك ضحى . متفق عليه . وفي رواية للترمذي : قالت : أجرت رجلين من أحمائي فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : قد أمنا من أمنت
ام ہانی کی طرف سے اپنے ایک عزیز کو امان دینے کا واقعہ
حضرت ام ہانی بنت ابوطالب کہتی ہیں کہ فتح مکہ کے سال (یعنی فتح مکہ کے موقع پر) میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی آنحضرت ﷺ اس وقت غسل فرما رہے تھے اور آپ ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ کپڑے سے آپ ﷺ کا پردہ کئے ہوئے تھیں۔ میں نے سلام عرض کیا، آپ ﷺ نے پوچھا کون ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں ہوں ام ہانی بنت ابوطالب! آپ ﷺ نے فرمایا۔ ام ہانی خوش آمدید! پھر جب آپ ﷺ غسل سے فارغ ہوئے تو جسم پر کپڑے لپیٹے ہوئے آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور (نماز چاشت کی آٹھ رکعتیں پڑھیں اور جب نماز پڑھ چکے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میری ماں کے بیٹے یعنی حضرت علی نے بتایا ہے کہ وہ اس شخص کو قتل کرنے والے ہیں جس کو میں نے اپنے گھر میں پناہ دی ہے یعنی فلاں شخص کو جو ہبیرہ کا بیٹا ہے؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ام ہانی جس کو تم نے پناہ دی ہے (گویا) اس کو ہم نے پناہ دی۔ حضرت ام ہانی کہتی ہیں کہ یہ واقعہ چاشت کے وقت کا ہے! اور ترمذی کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت ام ہانی نے (آنحضرت ﷺ سے) عرض کیا کہ میں نے دو آدمیوں کو پناہ دی ہے جو میرے خاوند کے رشتہ دار ہیں!؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہماری طرف سے اس شخض کے لئے امان ہے جس کو تم نے امان دی ہے۔

تشریح
حضرت ام ہانی کا اصل نام فاختہ تھا اور بعض نے عاتکہ بیان کیا ہے۔ یہ ابوطالب کی بیٹی اور حضرت علی کی حقیقی بہن ہیں، ہبیرہ ان کے خاوند کا نام ہے، جب ام ہانی نے فتح مکہ کے سال اسلام قبول کیا تو ہبیرہ سے ان کی جدائی واقع ہوگئی کیونکہ وہ مسلمان نہیں ہوا۔ جس شخص نے حضرت ام ہانی نے پناہ دی تھی وہ اس کے خاوند ہبیرہ کی اولاد میں سے تھا، اغلب یہ ہے کہ وہ ام ہانی کے علاوہ ہبیرہ کی کسی اور بیوی کے بطن سے تھا حضرت علی نے ان کی پناہ کو قبول نہ کرتے ہوئے اس شخص کو قتل کر ڈالنا چاہا تو ام ہانی نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر صورت حال بیان کی، چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان کی پناہ کو قبول کیا اور وہ شخص حضرت علی کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ گیا۔ ترمذی نے جو روایت نقل کی ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اس وقت ام ہانی ہی کے مکان میں غسل فرما رہے تھے، لیکن یہاں بخاری ومسلم کی جو روایت نقل کی گئی ہے اس کے ظاہری مفہوم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنے مکان میں یا حضرت فاطمہ کے گھر میں نہا رہے تھے، اس صورت میں دونوں روایتوں کے درمیان یوں مطابقت ہوگی کہ بخاری ومسلم کی روایت میں یہ عبارت مقرر مانی جائے کہ آنحضرت ﷺ میرے گھر میں غسل فرما رہے تھے یا پھر یہ کہا جائے کہ ترمذی کی روایت میں جو واقعہ نقل کیا گیا ہے وہ کسی اور موقع کا ہے اور بخاری ومسلم کی روایت کسی اور موقع سے متعلق ہے۔
Top