مشکوٰۃ المصابیح - مال غنیمت کی تقسیم اور اس میں خیانت کرنے کا بیان - حدیث نمبر 3927
عن عبد الرحمن بن عوف قال : إني واقف في الصف يوم بدر فنظرت عن يميني وعن شمالي فإذا بغلامين من الأنصار حديثة أسنانها فتمنيت أن أكون بين أضلع منهما فغمزني أحدهما فقال : يا عم هل تعرف أبا جهل ؟ قلت : نعم فما حاجتك إليه يا ابن أخي ؟ قال : أخبرت أنه يسب رسول الله صلى الله عليه و سلم والذي نفسي بيده لئن رأيته لا يفارق سوادي سواده حتى يموت الأعجل منا فتعجبت لذلك قال : وغمزني الآخر فقال لي مثلها فلم أنشب أن نظرت إلى أبي جهل يجول في الناس فقلت : ألا تريان ؟ هذا صاحبكما الذي تسألاني عنه قال : فابتدراه بسيفهما فضرباه حتى قتلاه ثم انصرفا إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فأخبراه فقال : أيكما قتله ؟ فقال كل واحد منهما : أنا قتله فقال : هل مسحتما سيفيكما ؟ فقالا : لا فنظر رسول الله صلى الله عليه و سلم إلى السيفين فقال : كلاكما قتله . وقضى رسول الله صلى الله عليه و سلم بسلبه لمعاذ بن عمرو بن الجموح والرجلان : معاذ بن عمرو بن الجموح ومعاذ بن عفراء (2/415) 4029 - [ 45 ] ( متفق عليه ) وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم يوم بدر : من ينظر لنا ما صنع أبو جهل ؟ فانطلق ابن مسعود فوجده قد ضربه ابنا عفراء حتى برد قال : فأخذ بلحيته فقال : أنت أبو جهل فقال : وهل فوق رجل قتلتموه . وفي رواية : قال : فلو غير أكار قتلني
ابوجہل کے قتل کا واقعہ
حضرت عبدالرحمٰن ابن عوف کہتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن میں ( دشمن کی مقابل) صف میں کھڑا تھا، جب میں نے دائیں بائیں نظر ڈالی تو کیا دیکھتا ہوں کہ میں دو انصار لڑکوں کے درمیان کھڑا ہوں، جو بالکل نوعمر تھے، مجھے یہ تمنّا ہوئی کہ کاش (اس وقت) میں ان دونوں سے زیادہ طاقتور اور تجربہ کار دو آدمیوں کے درمیان کھڑا ہوتا (یعنی) میں نے دونوں نوعمروں کو حوصلہ اور شجاعت کے اعتبار سے بےوقعت جانا اور یہ خیال کیا کہ چونکہ یہ نوعمر اور نا آزمودہ کار ہیں، اس لئے ہوسکتا ہے کہ دشمن کے حملہ کی تاب نہ لائیں اور معرکہ کے وقت بھاگ کھڑے ہوں جس سے میری ذات کو بھی بٹہ لگے، میں انہیں خیال میں غلطاں و پیچاں تھا کہ) ( اچانک ان دونوں میں سے ایک نے مجھے ٹہوکا دیا اور کہا کہ چچا جان! کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں، وہ کونسا ہے اور کہاں ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں! میں جانتا ہوں، لیکن میرے بھتیجے! تمہیں ابوجہل سے کیا غرض ہے؟ اس نے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ (لعین ابوجہل) رسول کریم ﷺ کو گالیاں دیا کرتا ہے، اس ذات کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر میں اس کو دیکھ لوں تو میرا جسم اس کے جسم سے اس وقت تک جدا نہ ہوگا جب تک ہم میں سے کوئی ایک موت کی طرف بڑھنے میں جلدی نہ کرے ( یعنی ابوجہل کے خلاف میرے دل میں اتنی نفرت ہے کہ میں اس کو دیکھتے ہی اس پر جھپٹ پڑوں گا اور اس وقت تک اس سے لڑوں گا جب تک ہم دونوں میں سے جس کی موت پہلے آنی والی ہوگی وہ نہ مرجائے خواہ میں شہید ہوجاؤں، خواہ میں اس کو جہنم رسید کروں )۔ حضرت عبد الرحمٰن کہتے ہیں کہ میں اس نوعمر کی اس بات کو سن کر حیران رہ گیا ( کہ خدایا، ان نوعمروں کے دل میں آنحضرت ﷺ کی کتنی محبت ہے اور ان کے جذبات میں ہمت و حوصلہ اور شجاعت و بہادری کا کیسا محشر بپا ہے) عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ( پھر دوسرے لڑکے نے مجھے ٹہوکا دیا اور اس نے بھی وہی الفاظ کہے جو پہلے نے کہے تھے، اس کے بعد میں نے کوئی توقف نہ کیا اور ابوجہل کو دیکھا جو (دشمن کے) لوگوں میں پھر رہا تھا، میں نے (اس کی طرف اشارہ کر کے) ان لڑکوں سے کہا کیا تم اس شخص کو نہیں دیکھ رہے جو (دشمن کے گروہ میں) پھر رہا ہے؟ یہی تمہارا وہ مطلوب ہے جس کے بارے میں تم مجھ سے پوچھ رہے تھے (یعنی اس شخص کو پہچان لو یہی ابوجہل ہے )۔ عبدالرحمن کہتے ہیں کہ (یہ سنتے ہی) وہ دونوں لڑکے اپنی تلوار سنبھال کر فورًا ابوجہل کی طرف لپکے اور اس پر حملہ کردیا۔ یہاں تک کہ اس کو قتل کر ڈالا، پھر دونوں رسول کریم ﷺ کے پاس لوٹ کر آئے اور آپ کو (اس واقعہ سے) آگاہ کیا، آپ ﷺ نے پوچھا کہ تم دونوں میں سے کس نے اس کو قتل کیا ہے؟ ان میں سے ہر ایک نے عرض کیا کہ اس کو میں نے قتل کیا ہے آپ ﷺ نے پوچھا کیا تم دونوں نے اپنی تلواریں پونچھ ڈالی ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں چناچہ آپ ﷺ نے ان دونوں کی تلواروں کو دیکھا اور فرمایا کہ تم دونوں ہی نے اس کو قتل کیا ہے نیز رسول کریم ﷺ نے حکم دیا کہ ابوجہل کا سامان معاذ ابن عمرہ ابن جموح کو دیا جائے۔ اور وہ دونوں لڑکے (جنہوں نے ابوجہل کو موت کے گھاٹ اتارا) معاذ ابن عمرو ابن جموح اور معاذ ابن عفراء تھے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
صحیح بخاری کی روایت میں معاذ ابن عفراء کے بجائے معوذ ابن عفراء ہے۔ نیز آگے جو روایت آرہی ہے اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ابوجہل کو عفراء کے دونوں بیٹوں نے قتل کیا، جب کہ اوپر جو روایت نقل کی گئی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان دونوں قتل کرنے والوں میں عفراء کا ایک ہی بیٹا تھا، اس طرح دونوں روایتوں میں بظاہر تضاد نظر آتا ہے چناچہ علماء محققین نے اس تضاد کو اس توجیہہ کے ذریعے دور کیا ہے کہ وہ دونوں ایک ماں کے بیٹے تھے لیکن ان کے باپ الگ الگ تھے، اس اعتبار سے وہ دونوں ماں کی طرف سے تو حقیقی بھائی تھے اور باپ کی طرف سے سوتیلے بھائی تھے، ان کی ماں کا نام عفراء تھا۔ ان میں سے ایک کے باپ کا نام عمرو ابن جموح تھا اور دوسرے کے باپ کا نام قسطلانی کے قول کے مطابق حارث تھا، چناچہ ان میں سے ایک کو اس کے باپ کی طرف منسوب کر کے معاذ ابن جموح کہا گیا اور دوسرے کو اس کی ماں کی طرف منسوب کر کے معاذ ابن عفراء یا معوذ ابن عفراء کہا گیا۔ اس موقع پر دو سوال اور بھی پیدا ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہ جب آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ابوجہل کو تم دونوں ہی نے قتل کیا ہے تو پھر آپ ﷺ نے ابوجہل کا سامان ان دونوں کو دینے کے بجائے ان میں سے ایک ہی کو دینے کا حکم کیوں دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ابوجہل کو قتل کرنے میں شریک تو شاید دونوں ہی رہے ہوں گے لیکن اصل میں جس نے پہلے ابوجہل پر حملہ کر کے اس کو بھاگنے اور چلنے پھرنے وغیرہ سے مجبور اور بےدم بنادیا ہوگا وہ ایک ہی رہا ہوگا پھر بعد میں دوسرے نے بھی آ کر اس پر مزید وار کر کے اس کو اور زیادہ زخمی کردیا ہوگا، اس اعتبار سے اس کے سامان کا مستحق اسی کو قرار دیا گیا جس نے پہلے حملہ کر کے اس کو بھاگنے یا مدافعتی حملہ کرنے سے ناکارہ کردیا تھا لیکن آپ ﷺ نے دوسرے کو بھی خوش کرنے کے لئے یہ فرما دیا کہ اس کو تم دونوں نے قتل کیا ہے۔ دوسرا سوال وہی ہے جو دوسری فصل میں حضرت ابن مسعود، کی اس روایت کے ضمن میں بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ابوجہل کی تلوار میرے حصے سے زائد مجھ کو عطا کی، اس روایت میں یہ بھی بیان کیا گیا تھا کہ ابوجہل کو حضرت ابن مسعود نے قتل کیا، اس اعتبار سے گویا ان دونوں روایتوں میں تضاد واقع ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں نوعمروں نے ابوجہل کو زخمی کر کے زمین پر ڈال دیا، جب ابن مسعود نے دیکھا اس میں زندگی کی رمق موجود ہے تو انہوں نے اس کا سر تن سے جدا کردیا، اس طرح، حضرت ابن مسعود کے اس عمل کو ابوجہل کے قتل سے تعبیر کیا گیا، نیز آنحضرت ﷺ نے اس بناء پر کہ اس کے قتل میں بہر حال ابن مسعود کا بھی کچھ نہ کچھ حصّہ تھا اس لئے ان کو بھی اس کے سامان کی ایک چیز یعنی تلوار عطا فرمائی۔ ایک بات یہ بھی ملحوظ رکھنی چاہئے، کہ حضرت امام مالک کے بعض متبعین کا یہ قول ہے کہ اس بارے میں امام سردار کو اختیار حاصل ہے کہ وہ جو چاہے فیصلہ کرے اور مقتول کا سامان جس کو چاہے دے دے، اس صورت میں مذکورہ بالا دونوں سوالوں کے پیدا ہونے کا بھی موقع باقی نہیں رہ جاتا۔ اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے جنگ بدر کے دن (میدان جنگ میں) فرمایا کہ کون شخص ہے جو دیکھ کر ہمیں بتائے کہ ابوجہل نے کیا کیا ( یعنی اس کا حشر کیا ہوا، آیا وہ مارا گیا، یا زندہ ہے؟ ) چناچہ ابن مسعود گئے اور انہوں نے ابوجہل کو اس حالت میں پایا کہ عفراء کے دونوں بیٹوں نے اس کو مار مار کر ٹھنڈا یعنی قریب المرگ کردیا تھا۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود نے (یہ دیکھ کر) ابوجہل کی ڈاڑھی پکڑ لی اور اس سے کہا کہ تو ابوجہل ہی ہے نا!؟ ابوجہل نے (ابن مسعود کے اس سوال کے پیچھے چھپے ہوئے طنز اور حقارت کو محسوس کرلیا اور) کہا کہ بیشک میں ابوجہل ہی ہوں لیکن) کیا اس شخص سے زیادہ بڑے مرتبے کے ہو جس کو تم نے قتل کیا ہے؟ یعنی جس شخص کو تم نے قتل کیا ہے (اس سے زیادہ بڑے مرتبے کا کوئی شخص نہیں ہے ( ان الفاظ کے ذریعہ گویا ابوجہل نے یہ دعویٰ کیا کہ قریش میں مجھ سے زیادہ بڑے مرتبے کا کوئی شخص نہیں ہے )۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ ابوجہل نے (اس موقع پر) کہا کہ اگر غیر زراعت پیشہ لوگ مجھے قتل کرتے تو بہت بہتر ہوتا۔ (بخاری ومسلم ) تشریح اگر غیر زراعت پیشہ لوگ مجھے قتل کرتے الخ سے ابوجہل کا مطلب یہ تھا کہ مجھے اس میں کوئی عار محسوس نہیں ہوئی ہے کہ تم لوگوں نے مجھے قتل کردیا ہے لیکن اس بات کا افسوس ضرور ہے کہ مجھے ان آدمیوں نے مارا ہے جو کھیتی باڑی کرنے والے ہیں اگر کاش! مجھے ان کے علاوہ دوسرے لوگ مارتے تو میرے نزدیک یہ زیادہ بہتر ہوتا۔ گویا ابوجہل نے عفراء کے دونوں بیٹوں کی طرف اشارہ کیا جنہوں نے اس کو قتل کیا تھا چناچہ وہ دونوں انصار سے تعلّق رکھتے تھے اور انصار کھیتی باڑی کرتے تھے۔ بایں طور کہ ان کے پاس کھیت بھی تھے اور کھجور کے باغات بھی۔
Top