مشکوٰۃ المصابیح - جزیہ کا بیان - حدیث نمبر 3935
عن معاذ : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم لما وجهه إلى اليمن أمره أن يأخذ من كل حالم يعني محتلم دينارا أو عدله من المعافري : ثياب تكون باليمن . رواه أبو داود
جزیہ کی مقدار
حضرت معاذ ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول کریم ﷺ نے ان ( معاذ) کو ( قاضی و حاکم بنا کر) یمن روانہ کیا تو ان کو یہ ہدایت کی کہ وہ ( وہاں کے) ہر حاکم یعنی ہر بالغ سے ایک دینار یا ایک دینار کی قیمت کا معافری کپڑا جو یمن میں تیار ہوتا ہے (جزیہ کے طور پر) لیں ( ابوداؤد)

تشریح
ابن ہمام (رح) فرماتے ہیں کہ جزیہ نہ تو عورت پر عائد ہوتا ہے اور نہ بچے پر۔ ( اسی طرح مجنوں، اندھے اور فالج زدہ پر بھی) جز یہ واجب نہیں ہوتا۔ نیز وہ بوڑھا جو لڑنے اور کام کرنے پر قادر نہ ہو اور وہ محتاج جو کوئی کام کرنے پر قادر نہ ہو جز یہ سے مستثنیٰ ہے یہ حدیث بظاہر امام شافعی (رح) کے مسلک کی دلیل ہے جن کے نزدیک جزیہ کی واجب مقدار کے بارے میں غنی اور فقیر (یعنی امیر و غریب) برابر ہیں کیونکہ اس حدیث میں کوئی تخصیص کا ذکر نہیں ہے۔ لیکن حنفیہ کے نزدیک غنی ( امیر) پر ہر سال اڑتالیس درہم واجب ہوتے ہیں جو ہر مہینے چار درہم کے حساب سے ادا کرنے ہوتے ہیں، درمیانی درجہ والے پر ہر سال چوبیس درہم ہوتے ہیں جنہیں وہ ہر ماہ دو دو درہم کر کے ادا کرے گا اور فقیر یعنی نچلے طبقہ والے پر جو کمانے والا ہو بارہ درہم واجب ہوتے ہیں جنہیں وہ ہر ماہ ایک ایک درہم کرکے ادا کرے گا۔ اسی حنفی مسلک کے بارے میں ہدایہ میں لکھا ہے کہ یہ مسلک حضرت عمر، حضرت عثمان ؓ سے منقول ہے نیز انصار و مہاجرین میں سے کسی سے بھی اس کے خلاف منقول نہیں ہے اور جہاں تک اس حدیث کا سوال ہے جس میں ہر بالغ سے ایک ایک دینار لینا روایت کیا گیا ہے تو یہ صلح کی صورت پر محمول ہے کہ یمن چونکہ جنگ وجدال کے ذریعے فتح نہیں ہوا تھا بلکہ باہمی صلح کے ذریعہ یمن والوں نے اپنے آپ کو مسلمانوں کے تسلّط و اقتدار میں دے دیا تھا لہٰذا جزیہ کے بارے میں بھی ان کے ساتھ مذکو رہ مقدار پر مصالحت ہوئی۔ یا یہ اس پر محمول ہے کہ اہل یمن چونکہ مالی طور پر بہت پس ماندہ اور خستہ حال تھے اس لئے ان پر جزیہ کی وہی مقدار واجب کی گئی جو فقراء ( غریبوں) پر واجب کی جانی چاہئے تھی۔
Top