مشکوٰۃ المصابیح - آرزوئے موت اور موت کو یاد رکھنے کی فضیلت کا بیان - حدیث نمبر 1583
عن معاذ بن جبل رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن شئتم أنبأتكم ما أول ما يقول الله للمؤمنين يوم القيامة ؟ وما أول ما يقولون له ؟ قلنا : نعم يا رسول الله قال : إن الله يقول للمؤمنين هل أحببتم لقائي ؟ فيقولون نعم يا ربنا فيقول : لم ؟ فيقولون : رجونا عفوك ومغفرتك . فيقول : قد وجبت لكم مغفرتي . رواه في شرح السنة وأبو نعيم في الحلية
موت کو کثرت سے یاد کرو
حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (دنیا کی) لذتوں کو کھو دینے والی چیز کو، کہ جو موت ہے کثرت سے یاد کرو۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ )

تشریح
صحیح یہی ہے کہ لفظ ہاذم ذال کے ساتھ ہے جس کے معنی ہیں قطع کرنے والا، چناچہ جن لوگوں نے دال کے ساتھ یعنی لفظ ہادم بمعنی ڈھالنے والا جو نقل کیا ہے صحیح نہیں ہے ہوسکتا ہے کہ اس بارے میں کسی راوی سے چوک ہوگئی ہو۔ بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کرنا چاہئے کیونکہ موت کو یاد کرنے سے غفلت جو نیک اعمال کے راستہ میں رکاوٹ بنتی ہے دور ہوتی ہے، موت کی یاد دنیا (کے برے کاموں) کی مشغولیت سے باز رکھتی ہے اور موت کو یاد کرنے والا طاعات و عبادات کی طرف متوجہ رہتا ہے جو توشہ آخرت ہے۔ نسائی نے اس روایت میں یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں۔ فانہ لا یذکر فی کثیر الا قللہ ولا فی قلیل الا کثرہ (ترجمہ) جب مال کی زیادتی میں موت یاد آتی ہے تو وہ مال کو کم کردیتی ہے (یعنی موت یاد آجانے کی وجہ سے مال کی طرف کوئی رغبت نہیں رہتی اور مال کو فانی سمجھنے لگتا ہے اس لئے اس وقت زیادہ مال بھی نظروں میں حقیر ہوجانے کی وجہ سے کم ہی محسوس ہوتا ہے) اور جب مال کی کمی میں موت یاد آجاتی ہے تو وہ مال کو زیادہ کردیتی ہے (یعنی جب موت یاد آتی ہے تو دنیا کو فانی سمجھ کر کم مال پر قناعت کرتا ہے اس لئے تھوڑا مال بھی زیادہ معلوم ہونے لگتا ہے۔
Top