مشکوٰۃ المصابیح - جنازہ کے ساتھ چلنے اور نماز جنازہ کا بیان - حدیث نمبر 1638
وعن طلحة بن عبد الله بن عوف قال : صليت خلف ابن عباس على جنازة فقرأ فاتحة الكتاب فقال : لتعلموا أنها سنة . رواه البخاري
نماز جنازہ میں سورت فاتحہ پڑھنے کا مسئلہ
حضرت طلحہ بن عبداللہ بن عوف (طابعی) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ کے پیچھے جنازہ کی نماز پڑھی چناچہ انہوں نے (تکبیر اولیٰ کے بعد) سورت فاتحہ پڑھی اور فرمایا کہ میں نے سورت فاتحہ اس لئے پڑھی ہے تاکہ تم لوگ جان لو کہ یہ سنت ہے۔ (بخاری)

تشریح
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ یہ سنت ہے۔ سے مراد یہ ہے کہ نماز جنازہ میں سورت فاتحہ پڑھنا واجب نہیں ہے۔ یعنی اگر تکبیر اولیٰ کے بعد سبحانک اللہم الخ کے بجائے سورت فاتحہ پڑھی جائے تو یہ سورت فاتحہ سنت (یعنی سبحانک اللہم الخ پڑھنے) کے قائم مقام ہوجاتی ہے۔ محقق امام ابن ہمام فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ میں سورت فاتحہ کی قرأت نہ کی جائے ہاں بہ نیت ثنا سورت فاتحہ پڑھی جاسکتی ہے چناچہ نماز جنازہ میں آنحضرت ﷺ سے سورت فاتحہ پڑھنا ثابت نہیں ہے۔ نیز موطا میں منقول ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نماز جنازہ میں سورت فاتحہ نہیں پڑھتے تھے۔ چونکہ حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک نماز جنازہ میں سورت فاتحہ پڑھنا واجب ہے اس لئے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس کے الفاظ انہا سنۃ (یہ سنت ہے) میں سنت سے مراد ہے کہ سورت فاتحہ پڑھنا دین کا ایک مشروع طریقہ ہے لہٰذا ان کی اس تاویل سے وجوب کی نفی نہیں ہوتی۔
Top