مشکوٰۃ المصابیح - جن لوگوں کو زکوۃ کا مال لینا اور کھانا حلال نہیں ہے ان کا بیان - حدیث نمبر 1827
وعن عبيد الله بن عدي بن الخيار قال : أخبرني رجلان أنهما أتيا النبي صلى الله عليه و سلم وهو في حجة الوداع وهو يقسم الصدقة فسألاه منها فرفع فينا النظر وخفضه فرآنا جلدين فقال : إن شئتما أعطيتكما ولا حظ فيها لغني ولا لقوي مكتسب . رواه أبو داود والنسائي
تندرست وتوانا کو زکوٰۃ کا مال لینا مناسب نہیں
حضرت عبیداللہ بن عدی بن خیار کہتے ہیں کہ مجھے دو آدمیوں نے بتایا کہ وہ دونوں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب کہ آپ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں کو زکوٰۃ کا مال تقسیم فرما رہے تھے ان دونوں نے بھی آپ ﷺ کے سامنے اس مال میں سے کچھ لینے کی خواہش کا اظہار کیا، وہ دونوں کہتے تھے کہ آپ ﷺ نے ہماری خواہش و طلب کو دیکھ کر ہم پر سر سے پاؤں تک نظر دوڑائی اور ہمیں تندرست و توانا دیکھ کر فرمایا کہ اگر تم لینا ہی چاہتے ہو تو میں تمہیں دے دوں لیکن یاد رکھو کہ صدقات و زکوٰۃ کے اس مال میں سے نہ تو غنی کا کوئی حصہ اور نہ اس شخص کا جو تندرست و توانا ہو اور کمانے پر قادر ہو۔ (ابو داؤد، نسائی)

تشریح
حجتہ الوداع آنحضرت ﷺ کے آخری حج کو کہتے ہیں جس میں آپ ﷺ نے احکام الٰہی کی وضاحت فرمائی اور لوگوں کو وداع کہا اور پھر اس کے چند مہینوں بعد ہی رفیق اعلیٰ سے جا ملے۔ حضرت امام شافعی کے مسلک کے مطابق حدیث کے آخری جملوں کا مطلب یہ ہوگا کہ تم لوگوں کے لئے صدقہ کا مال کھانا حرام ہے لیکن اگر تم حرام مال کھانا ہی چاہتے ہو تو میں تمہیں دے دیتا ہوں، گویا آپ ﷺ نے زجر توبیخ کے طور پر اس طرح ارشاد فرمایا۔ حنفیہ کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر تم اس مال میں سے لینا چاہتے ہو تو میں تمہیں دے دیتا ہوں لیکن یہ سمجھ کہ جو شخص تندرست و توانا ہو اور کمانے پر قدرت رکھتا ہو اس کے لئے صدقہ کا مال کھانا کچھ زیب نہیں دیتا۔
Top