مشکوٰۃ المصابیح - روزہ کو پاک کرنے کا بیان - حدیث نمبر 2022
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من أفطر يوما من رمضان من غير رخصة ولا مرض لم يقض عنه صوم الدهر كله وإن صامه . رواه أحمد والترمذي وأبو داود وابن ماجه والدارمي والبخاري في ترجمة باب وقال الترمذي : سمعت محمدا يعني البخاري يقول . أبو الطوس الراوي لا أعرف له غير هذا الحديث
بلا عذر روزہ نہ رکھنا
حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص بلا رخصت اور بلا مرض رمضان کا کوئی روزہ قصدا نہ رکھے تو تمام عمر روزہ رکھنا بھی اس کا بدلہ نہیں ہوسکتا اگرچہ وہ تمام عمر روزہ رکھے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی، ) امام بخاری نے اس روایت کو بخاری کے ترجمۃ الباب میں نقل کیا ہے نیز امام ترمذی نے کہا ہے کہ میں نے حضرت امام بخاری (رح) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں اس روایت کے ایک راوی ابوالمطوس کو اس حدیث کے علاوہ اور کسی حدیث کا راوی نہیں جانتا۔

تشریح
بلا رخصت قصدا روزہ نہ رکھنے سے مراد یہ ہے کہ شریعت نے روزہ نہ رکھنے کے لئے حالت سفر وغیرہ میں جو رخصت یعنی اجازت عطا فرمائی ہے اس کے علاوہ اس حالت جب کہ روزہ رکھنا ضروری ہے قصدا روزہ نہ رکھے چناچہ اس کے بارے میں ابتداء باب میں تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ وان صامہ ما قبل جملہ کی تاکید کے طور پر ارشاد فرمائے گئے ہیں۔ یہ حدیث رمضان کے روزہ کی اہمیت و عظمت کے اظہار کے لئے بطور مبالغہ ارشاد فرمائی گئی ہے لہٰذا حدیث کی مراد یہ ہے کہ فرض روزہ کا ثواب اس قدر اور اتنا زیادہ ہے کہ وہ نفل روزہ سے میسر نہی آتا چاہے کوئی تمام عمر ہی نفل روزہ کیوں نہ رکھے اس بارے میں جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے علماء لکھتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے رمضان کا کوئی روزہ نہیں رکھا اور پھر بعد میں قضا روزہ رکھ لیا تو اس کے ذمہ سے فرض ادا ہوجائے گا اسی طرح اگر کسی شخص نے رمضان کا کوئی روزہ قصدا توڑ ڈالا اور پھر اس کے کفارہ کے طور پر دو مہینے کے روزے رکھ لئے تو وہ بری الذمہ ہوجائے گا۔ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص رمضان کا روزہ نہ رکھے اور اس کے بدلے تمام عمر بھی روزے رکھے تو وہ بری الذمہ نہیں چناچہ حضرت علی اور حضرت ابن مسعود ؓ کا یہی مسلک تھا لیکن اکثر صحابہ اور علماء کا مسلک یہ ہے کہ ایک دن کے روزے کا بدل دوسرے دن کا روزہ ہوجاتا ہے یعنی اگر رمضان میں ایک دن کا روزہ نہ رکھا جائے اور اس کی قضا کے طور پر کسی دوسرے دن روزہ رکھ لیا جائے تو فرض ادا ہوجاتا ہے چاہے یہی صورت کیوں نہ ہو کہ رمضان کا وہ روزہ جو نہیں رکھا گیا گرمی کے کسی سخت اور بڑے دن میں رہا ہو اور اس کی قضا کے طور پر سردی میں اور چھوٹے دن روزہ رکھا جائے۔ اسی طرح صحیح مسئلہ یہ ہے کہ نماز بھی روزے کے حکم میں ہے کہ اگر کسی وقت نماز نہ پڑھے تو دوسرے وقت اس کی قضا پڑھنے سے فرض ادا ہوجاتا ہے کیونکہ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ تمام علماء کے نزدیک نماز روزہ سے افضل ہے۔
Top