مشکوٰۃ المصابیح - نفل روزہ کا بیان - حدیث نمبر 2085
وعن أنس قال : دخل النبي صلى الله عليه و سلم على أم سليم فأتته بتمر وسمن فقال : أعيدوا سمنكم في سقائه وتمركم في وعائه فإني صائم . ثم قام إلى ناحية من البيت فصلى غير المكتوبة فدعا لأم سليم وأهل بيتها . رواه البخاري
نفل روزہ توڑنے کے سلسلہ میں ضیافت عذر ہے یا نہیں ؟
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ حضرت ام سلیم ؓ کے پاس تشریف لے گئے تو وہ آپ ﷺ کے لئے گھی اور کھجور لائیں تاکہ آپ ﷺ تناول فرمائیں آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اپنے گھی کو اس کی مشک میں اور کھجور کو اس کے برتن میں رکھ دو کیونکہ میں روزہ سے ہوں پھر آپ ﷺ گھر کے ایک کونہ میں کھڑے ہو کر فرض کے علاوہ نماز پڑھنے لگے اور ام سلیم ؓ اور ان کے گھر والوں کے لئے دعا فرمائی۔ (بخاری)

تشریح
بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ام سلیم ؓ کی ضیافت کے باوجود اس لئے روزہ نہیں توڑا کہ آپ ﷺ جانتے تھے کہ اس سے ام سلیم ؓ رنجیدہ نہیں ہوں گی۔ اس بارے میں کہ آیا ضیافت نفل روزہ رکھنے والے کے لئے عذر ہے یا نہیں؟ اگرچہ مشائخ کے ہاں اختلاف ہے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ مہمان اور میزبان دونوں کے لئے ضیافت عذر ہے بشرطیکہ میزبان محض مہمان کے آنے اور اپنے ساتھ کھانا نہ کھانے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ خوش نہ ہو بلکہ ملول بھی ہو اسی طرح کھانے میں میزبان کی عدم شرکت سے مہمان کی دل شکنی اور اس کو ناگواری اور تنگی ہو حاصل یہ کہ اگر کھانے میں شرکت نہ کرنے سے دل شکنی ہوتی ہو تو ضیافت عذر ہے لہٰذا نفل روزہ توڑ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے مگر بعد میں اس روزہ کی قضا ضروری ہوگی اور اگر یہ معلوم ہو کہ دل شکنی نہیں ہوگی تو روزہ نہ توڑنا چاہئے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ روزہ دار مہمان کے لئے مستحب ہے کہ وہ میزبان اور اس کے اہل و عیال کے حق میں دعائے خیر کرے۔
Top