مشکوٰۃ المصابیح - نفل روزہ کا بیان - حدیث نمبر 2087
عن أم هانئ رضي الله عنها قالت : لما كان يوم الفتح فتح مكة جاءت فاطمة فجلست على يسار رسول الله صلى الله عليه و سلم وأم هانئ عن يمينه فجاءت الوليدة بإناء فيه شراب فناولته فشرب منه ثم ناوله أم هانئ فشربت منه فقالت : يا رسول الله لقد أفطرت وكنت صائمة فقال لها : أكنت تقضين شيئا ؟ قالت : لا . قال : فلا يضرك إن كان تطوعا . رواه أبو داود والترمذي والدارمي وفي رواية لأحمد والترمذي نحوه وفيه فقالت : يا رسول الله أما إني كنت صائمة فقال : الصائم أمير نفسه إن شاء صام وإن شاء أفطر
نفل روزہ توڑنے کے سلسلہ میں ضیافت عذر ہے یا نہیں ؟
حضرت ام ہانی ؓ سے روایت ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو اس دن حضرت فاطمہ ؓ آئیں اور نبی کریم ﷺ کے بائیں طرف بیٹھ گئیں اور ام ہانی ؓ آپ ﷺ کے دائیں طرف بیٹھی ہوئی تھیں اتنے میں ایک لونڈی ایک برتن لے کر آئی جس میں پینے کی کوئی چیز تھی لونڈی نے وہ برتن آنحضرت ﷺ کو دیا آپ ﷺ نے اس میں سے کچھ پی کر وہ برتن ام ہانی ؓ کو عنایت فرمایا۔ ام ہانی ؓ نے بھی اس میں سے پیا اور کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ ﷺ! میں نے افطار کرلیا کیونکہ میں روزے سے تھی آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ کیا تم نے رمضان کا کوئی قضا یا نذر کا روزہ رکھا تھا؟ انہوں نے کہا نہیں! بلکہ نفل روزہ رکھا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر یہ نفل روزہ تھا تو کوئی حرج نہیں (ابو داؤد، ترمذی، دارمی) ایک اور روایت میں جو احمد اور ترمذی نے اسی کی مانند نقل کیا ہے یہ الفاظ بھی ہیں کہ ام ہانی ؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہونا چاہئے کہ میں روزہ سے تھی آپ ﷺ نے فرمایا نفل روزہ رکھنے والا اپنے نفس کا مالک ہے چاہے روزہ رکھے چاہے افطار کرے۔

تشریح
اپنے نفس کا مالک ہے کا مطلب یہ ہے کہ نفل روزہ رکھنے والا خود مختار ہے کہ ابتدا چاہے تو روزہ رکھے یعنی روزہ کی نیت کرے، چاہے افطار کرے یعنی روزہ نہ رکھنے کو اختیار کرے، یا پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نفل روزہ رکھنے والا روزہ رکھنے کے بعد بھی مختار ہے کہ چاہے تو اپنا روزہ پورا کرے چاہے تو توڑ ڈالے، اس صورت میں اس کی تاویل یہ ہوگی کہ نفل روزہ دار کو اس بات کا اختیار ہے کہ اگر اس کے پیش نظر کوئی مصلحت ہو مثلا کوئی شخص اس کی ضیافت کرے یا کسی جماعت کے پاس جائے جس کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ اگر روزہ توڑ کر ان کے ساتھ کھانے پینے میں شریک نہیں ہوگا تو لوگ وحشت و پریشانی میں مبتلا ہوجائیں گے تو اس صورت میں وہ روزہ توڑ سکتا ہے تاکہ آپس میں میل ملاپ اور محبت و الفت کی فضا برقرار رہے لہٰذا ان الفاظ و معانی سے یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ نفل روزہ توڑنے کے بعد اس کی قضا ضروری نہیں ہے جب کہ اس کے بعد آنے والی حدیث بڑی وضاحت کے ساتھ قضا کے ضروری ہونے کو ثابت کر رہی ہے۔ ام ہانی ؓ کی اس روایت کے بارے میں محدثین کے ہاں کلام ہے چناچہ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس کی اسناد محل بحث ہے اور منذری (رح) نے کہا ہے کہ یہ ثابت نہیں ہے اور اس کی اسناد میں بہت اختلاف ہے۔
Top