مشکوٰۃ المصابیح - صبح وشام اور سوتے وقت پڑھی جانے والی دعاؤں کا بیان - حدیث نمبر 2417
وعن علي : أن فاطمة أنت النبي صلى الله عليه و سلم تشكو إليه ما تلقى في يدها من الرحى وبلغها أنه جاءه رقيق فلم تصادفه فذكرت ذلك لعائشة فلما جاء أخبرته عائشة قال : فجاءنا وقد أخذنا مضاجعنا فذهبنا نقوم فقال : على مكانكما فجاء فقعد بيني وبينها حتى وجدت برد قدمه على بطني فقال : ألا أدلكما على خير مما سألتما ؟ إذا أخذتما مضجعكما فسبحا ثلاثا وثلاثين واحمدا ثلاثا وثلاثين وكبرا ثلاثا وثلاثين فهو خير لكما من خادم
سوتے وقت بستر کو جھاڑ لینا چاہئے
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ (میری زوجہ محترمہ اور نبی کریم ﷺ کی صاحبزادی) حضرت فاطمہ ؓ نبی کریم ﷺ کے ہاں اس غرض سے حاضر ہوئی کہ چکی پیسنے کی وجہ سے ان کے ہاتھ جس زحمت و مشقت میں مبتلا تھے اس کی شکایت آنحضرت ﷺ سے کریں (اور کوئی خدمت گار مانگیں) کیونکہ حضرت فاطمہ ؓ کو معلوم ہوا تھا کہ آنحضرت ﷺ کے پاس کچھ غلام آئے ہیں مگر اس وقت آپ ﷺ سے ان کی ملاقات نہیں ہوئی، چناچہ انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کے سامنے اس کا تذکرہ کیا یعنی ان سے کہا کہ جب آنحضرت ﷺ تشریف لائیں تو کہہ دیجئے گا کہ فاطمہ ؓ اپنی مشقت و تکلیف کے پیش نظر ایک غلام مانگنے حاضر ہوئی تھیں۔ پھر جب آنحضرت ﷺ تشریف لائے تو حضرت عائشہ ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ کا پیغام آپ ﷺ تک پہنچا دیا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد آنحضرت ﷺ ہمارے ہاں اس وقت تشریف لائے جب کہ ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے (آپ ﷺ کو دیکھ کر ہم نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اپنی جگہ پر لیٹے رہو، پھر آپ ﷺ ہمارے نزدیک تشریف لائے اور میرے اور فاطمہ کے درمیان بیٹھ گئے یہاں تک کہ میں نے اپنے پیٹ پر آپ ﷺ کے مبارک قدموں کی ٹھنڈک محسوس کی پھر آپ ﷺ نے فرمایا (مجھے فاطمہ کا پیغام مل گیا ہے) کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتلا دوں جو اس چیز (یعنی غلام) سے بہتر ہے جو تم نے مانگی تھی اور وہ یہ ہے کہ جب تم اپنے بستر پر آؤ تو تینتیس بار سبحان اللہ تینتیس بار الحمد للہ اور چونتیس بار اللہ اکبر کہو تمہارے لئے خادم سے یہ چیز بہتر ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
چونکہ آنحضرت ﷺ حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ دونوں ہی سے بےانتہا محبت فرماتے تھے اور آپ ﷺ کی بےحد شفقت کسی تکلف کو گوارہ نہیں کرتی تھی اس لئے جب آپ ﷺ ان کے ہاں آئے تو کامل محبت و شفقت کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان تشریف فرما ہوگئے کیونکہ پیار و محبت اور شفقت و الفت کسی تکلف کی پابند نہیں ہوتی، اس لئے کہا گیا ہے کہ (اذا جاءت الالفۃ رفعت الکلفۃ (ترجمہ) جب الفت آئی تو تکلف اٹھا دی گئی۔ مذکورہ بالا کلمات کی ترتیب کے سلسلہ میں جزری نے شرح مصابیح میں کہا ہے کہ تکبیر پہلے ہے چناچہ ابن کثیر (رح) فرمایا کرتے تھے کہ نمازوں کے بعد تو پہلے سبحان اللہ پڑھنا چاہئے اس کے بعد الحمد للہ اور پھر اللہ اکبر لیکن سوتے وقت پہلے اللہ اکبر ہی پڑھ لینا چاہئے اس سلسلہ میں علماء لکھتے ہیں کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اللہ اکبر کو کبھی تو پہلے پڑھا جائے اور کبھی بعد میں تاکہ اس بارے میں منقول دونوں روایتوں ہی پر عمل ہو اور یہی اولی اور زیادہ بہتر ہے۔ ارشاد گرامی، تمہارے لئے یہ چیز خادم سے زیادہ بہتر ہے۔ کے ذریعہ حضرت فاطمہ ؓ کو دنیا کی مشقتوں اور تکالیف اور دنیاوی طور پر ناپائیدار چیزوں مثلاً مرض و فقر پر صبر کی ترغیب دلائی گئی ہے نیز اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ شکر کرنے والے مالدار کی بہ نسبت صبر کرنے والا مفلس زیادہ افضل ہے۔
Top