مشکوٰۃ المصابیح - رحمت باری تعالیٰ کی وسعت کا بیان - حدیث نمبر 2395
عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لما قضى الله الخلق كتب كتابا فهو عنده فوق عرشه : إن رحمتي سبقت غضبي . وفي رواية غلبت غضبي
اللہ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے
حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جب میثاق کے دن مخلوقات کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا (یا یہ کہ جب مخلوقات کو پیدا کرنا شروع کیا) تو ایک کتاب لکھی (یعنی فرشتوں کو وہ کتاب لکھنے کا حکم دیا یا قلم کو لکھنے کا حکم فرمایا) وہ کتاب حق تعالیٰ کے پاس عرش کے اوپر ہے اس کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ بلاشبہ میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
جس کتاب میں حق تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارت عظمی لکھی ہوئی ہے کہ اللہ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے اس کتاب کی عظمت و بزرگ قدری کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کتاب کی اس عظیم و بزرگ قدری کے پیش نظر حق تعالیٰ نے اس کو اپنے پاس عرش کے اوپر رکھا ہے۔ رحمت الٰہی کی سبقت اور اس کے غالب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت، اس کی بخشش و کرم اور اس کی نعمتوں کی نشانیاں اور اس کے مظاہرے غالب ہیں کہ وہ تمام مخلوقات کو گہیرے ہوئے ہیں اور بےانتہا ہیں اس کے مقابلہ میں اس کے غضب کی نشانیاں اور اس کے مظاہر کم ہیں جیسا کہ خود حق تعالیٰ کا ارشد ہے۔ آیت (وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا۔ اگر تم اللہ کی نعمتیں شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کرسکتے۔ نیز فرمایا۔ آیت (عذابی اصیب بہ من اشاء ورحمتی وسعت کل شیئ)۔ عذاب تو میں جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں مگر میری رحمت ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی رحمت کا دائرہ اور اس کی نعمتوں کا سلسلہ اتنا وسیع اور ہمہ گیر ہے کہ کائنات کا کوئی فرد اس سے باہر نہیں ہے اور اس دنیاوی زندگی کا ایک ایک لمحہ کسی نہ کسی شکل میں رحمت الٰہی ہی کا مرہون منت ہوتا ہے لیکن اس کے مقابلہ میں بندوں کی طرف سے خدائے رحیم وکریم کی نعمتوں اور رحمتوں کے شکر کی ادائیگی میں جتنی کوتاہی اور قصور ہوتا ہے اس کی بھی کوئی حد اور انتہا نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت (ولو یؤ اخذ اللہ الناس بظلمہم ماترک علی ظہرہا من دابۃ)۔ اور اگر اللہ تعالیٰ ان کے ظلم کے سبب ان سے مواخذہ کرنے لگے تو اس کے نتیجہ میں ایک بھی جاندار روئے زمین پر نہ چھوڑے۔ چناچہ یہ بھی حق تعالیٰ کی رحمت کا ہی ظہور ہے کہ بندوں کی تمام کو تاہیوں اور خطاؤں کے باوجود اس دنیا میں ان کو باقی رکھتا ہے اور ان کو روزی دیتا ہے ان پر اپنی نعمتوں کی بارش کرتا ہے اور اس دنیا میں ان کو عذاب ومواخذہ میں مبتلا نہیں کرتا یہ تو اس دنیا کا معاملہ ہے کہ یہاں حق تعالیٰ کی رحمت کا ظہور کس کس طرح اور کن کن صورتوں میں سامنے آتا ہے لیکن آخرت میں رحمت کا ظہور تو اس دنیا کے ظہور سے کہیں زیادہ ہوگا جیسا کہ اگلی حدیث سے معلوم ہوگا۔
Top