مشکوٰۃ المصابیح - افعال حج کا بیان - حدیث نمبر 2555
وعن أنس قال : اعتمر رسول الله صلى الله عليه و سلم أربع عمر كلهن في ذي القعدة إلا التي كانت مع حجته : عمرة من الحديبية في ذي القعدة وعمرة من العام المقبل في ذي القعدة وعمرة من الجعرانة حيث قسم غنائم حنين في ذي القعدة وعمرة مع حجته
آنحضرت ﷺ کے حج وعمرہ کی تعداد
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے چار عمرے کئے ہیں اور وہ سب ذی قعدہ کے مہینے میں کئے گئے تھے علاوہ اس ایک عمرہ کے جو حج کے ساتھ کیا گیا تھا اور ذی الحجہ کے مہینے میں ہوا تھا (اور ان چار عمروں کی تفصیل یہ ہے کہ) ایک عمرہ حدیبیہ سے ذی قعدہ کے مہینے میں، دوسرا عمرہ اس کے اگلے سال وہ بھی ذی قعدہ میں ہوا، تیسرا عمرہ جعرانہ سے جہاں غزوہ حنین کا مال غنیمت تقسیم کیا گیا یہ عمرہ بھی ذی قعدہ میں ہوا اور چوتھا عمرہ حج کے ساتھ جو ذی الحجہ میں ہوا تھا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
حدیبیہ ایک جگہ کا نام ہے جو مکہ مکرمہ سے مغربی جانب تقریبا پندرہ سولہ میل (٢٦ کلو میٹر) کے فاصلے پر جدہ جاتے ہوئے ملتی ہے یہ مکہ سے شمال مغربی جانب ہے یہیں جبل الشمیسی نامی ایک پہاڑ ہے جس کی وجہ سے اب اس مقام کو شمیسہ بھی کہتے ہیں۔ حدود حرم یہاں سے بھی گزرتے ہیں اس لئے اس جگہ کا اکثر حصہ حرم میں ہے اور کچھ حصہ حل میں (یعنی حرم سے باہر) ہے۔ عمرہ حدیبیہ کا (اجمالی) بیان یہ ہے کہ سن ٦ ھ میں ذی قعدہ کی پہلی تاریخ کو دوشنبہ کے دن نبی کریم ﷺ عمرہ کے قصد سے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے چودہ سو یا اس سے کچھ زائد رفقاء آپ ﷺ کے ساتھ تھے جب آپ ﷺ حدیبیہ پہنچے تو قریش مکہ جمع ہو کر آپ ﷺ کے پاس آئے اور زیارت بیت اللہ سے آپ ﷺ کو روکا، کافی ردو قدح کے بعد کہ جس کی تفصیل تاریخ و سیر کی کتابوں میں ملتی ہے۔ آنحضرت ﷺ اور قریش مکہ کے درمیان ایک معاہدہ عمل میں آیا جو معاہدہ حدیبیہ اور صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے اس معاہدے کی رو سے یہ طے پایا کہ آنحضرت ﷺ مع رفقاء اس سال تو مدینہ واپس چلے جائیں اور آئندہ سال آ کر عمرہ کریں۔ چناچہ آپ ﷺ قریش سے صلح کر کے عمرہ کئے بغیر مدینہ منورہ واپس ہوگئے لہٰذا حقیقت میں تو آپ ﷺ نے عمرہ ادا نہیں کیا مگر عمرہ کا ثواب مل جانے کی وجہ سے یہ آپ ﷺ کا پہلا عمرہ شمار کیا گیا۔ اسی موقع پر احصار کا حکم مشروع ہوا۔ چناچہ آئندہ سال اسی عمرہ کی قضاء کے لئے آپ ﷺ مکہ تشریف لائے تین روز مکہ میں قیام فرمایا عمرہ ادا کیا اور چوتھے روز وہاں سے واپس ہوئے۔ یہ دوسرا عمرہ ہوا اسی عمرہ کو عمرۃ القضاء کہتے ہیں یہ نام احادیث میں بھی منقول ہے۔ حنفیہ اس سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محرم احصار کی وجہ سے احرام سے باہر آجائے تو اس کی قضا اس پر واجب ہوگی حضرت امام شافعی کے نزدیک قضا واجب نہیں ہوتی۔ آپ ﷺ کا تیسرا عمرہ وہ ہے جو آپ ﷺ نے جعرانہ سے مکہ مکرمہ جا کر ادا کیا۔ جہاں آپ ﷺ نے غزوہ حنین کا مال تقسیم کیا تھا اس کی تفصیل یہ ہے کہ جعرانہ، مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے جب فتح مکہ کے بعد سن ٨ ھ میں غزوہ حنین کا واقعہ پیش آیا تو اس وقت بیشمار مال غنیمت ہاتھ لگا، اسی موقع پر آپ ﷺ جعرانہ میں پندرہ سولہ روز قیام پذیر رہے اور وہ مال غنیمت صحابہ میں تقسیم فرمایا انہیں دنوں میں ایک روز رات میں بعد نماز عشاء آپ ﷺ مکہ تشریف لے گئے اور عمرہ کیا اور اسی رات میں واپس آئے اور جعرانہ میں نماز فجر پڑھی۔ چوتھا عمرہ وہ ہے جو آپ ﷺ نے حج فرض ہونے کے بعد سن ١٠ ھ میں حج کے ساتھ کیا، لہٰذا یہ عمرہ تو ذی الحجہ میں ہوا اور بقیہ عمرے ذی قعدہ میں کئے اس طرح آپ ﷺ نے جو چار عمرے کئے تھے وہ یہ تھے، البتہ زمانہ اسلام میں حج آپ ﷺ نے ایک مرتبہ کیا ہے جب کہ وہ فرض ہوا ہے ایام جاہلیت میں قریش حج کرتے تھے۔ آپ ﷺ بھی اس وقت حج کرتے تھے لیکن ان کی تعداد علماء کو صحیح طور پر معلوم نہیں ہے۔
Top