مشکوٰۃ المصابیح - افعال حج کا بیان - حدیث نمبر 2559
وعن علي رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من ملك زادا وراحلة تبلغه إلى بيت الله ولم يحج فلا عليه أن يموت يهوديا أو نصرانيا وذلك أن الله تبارك وتعالى يقول : ( ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلا ) رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب . وفي إسناده مقال وهلال بن عبد الله مجهول والحارث يضعف في الحديث
باوجود قدرت کے حج نہ کرنے والے کے لئے وعید
حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص زاد راہ اور سواری کا مالک ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا دے (یعنی جو شخص حج کرنے کی استطاعت وقدرت رکھتا ہو) اور (پھر بھی) وہ حج نہ کرے تو اس کے یہودی یا نصرانی ہو کر مرجانے (اور بےحج مرجانے) میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہ (یعنی حج کے لئے زاد راہ و سواری کا شرط ہونا اور اس عظیم عبادت کو ترک کردینے پر مذکورہ بالا وعید) اس لئے ہے کہ اللہ بزرگ و برتر فرماتا ہے۔ آیت (وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْ تَ طَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا) 3۔ ال عمران 97)۔ اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے لوگوں پر کعبہ کا حج کرنا ضروری ہے جو وہاں جاسکتا ہو۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند محل کلام ہے ہلال ابن عبداللہ مجہول ہیں اور حارث روایت حدیث میں ضعیف شمار کئے جاتے ہیں۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے پاس اتنا روپیہ ہو کہ وہ سفر حج میں جانے اور آنے کے اخراجات کے لئے کافی بھی ہوجائے اور اپنے اہل و عیال کو بھی اس قدر دے جائے جو اس کی واپسی تک ان کی ضروریات زندگی کو پورا کرسکے نیز اس کے پاس ایسی سواری ہو جو بیت اللہ تک پہنچا سکے، چاہے وہ اپنی ہو یا کرایہ کی ہو اور وہ اتنی استطاعت وقدرت کے باوجود بھی حج نہ کرے اور مرجائے تو وہ یہودی و نصرانی ہو کر مرتا ہے۔ اب اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر اس نے استطاعت وقدرت کے باوجود حج اس لئے نہیں کیا کہ وہ اس کی فرضیت ہی کا منکر ہو تو پھر یہودی اور نصرانی کی اس مشابہت کا تعلق کفر سے ہوگا۔ یعنی جس طرح یہودی و نصرانی کفر کی حالت میں مرتے ہیں، اسی طرح وہ بھی کفر کی حالت میں مرے گا اور اگر فرضیت کا منکر ہوئے بغیر حج نہ کرے تو اس مشابہت کا تعلق گناہ سے ہوگا کہ یہودی و نصرانی جتنے سخت گناہ کی حالت میں مرتے ہیں وہ بھی اتنے ہی شدید گناہ کا بار لئے موت کی نذر ہوگا۔ اگرچہ بعض علماء کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے یہ وعید از راہ تغلیظ و تشدید یعنی ترک حج کے گناہ کی شدت وہیبت ناکی کے اظہار کے لئے فرمائی ہے۔ لیکن بہر نوع ترک حج ایک ایسا گناہ ہے اور اتنا شدید جرم ہے کہ نبی کریم ﷺ کو اتنی شدید اور سخت وعید بیان فرمانی پڑی کہ حج نہ کرنے والا یہودی یا نصرانی ہو کر مرتا ہے العیاذ باللہ منہ۔ الیہ سبیلا کے بعد آیت کا بقیہ حصہ یہ ہے آیت (وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ ) 3۔ آل عمران 97)۔ اور کوئی کفر کرے (اور طاعات و عبادات نہ کر کے) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفران کرے تو اللہ تعالیٰ عالم کے لوگوں سے بےنیاز ہے۔ یعنی لوگ طاعت و عبادت کریں یا نہ کریں اس سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نقصان نہیں، نفع نقصان تو انہیں لوگوں کو ہے کہ اگر طاعت و عبادت کریں تو فلاح و نجات پائیں گے اور اگر نہ کریں گے تو خسران و عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ بظاہر تو معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ پوری آیت پڑھی ہوگی کیونکہ استدلال تو پوری ہی آیت سے ہوتا ہے لیکن راوی نے الیہ سبیلا ہی تک اس آیت کو نقل کیا۔
Top