مشکوٰۃ المصابیح - وقوف عرفات کا بیان - حدیث نمبر 2645
وعن عباس بن مرداس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم دعا لأمته عشية عرفة بالمغفرة فأجيب : إني قد غفرت لهم ما خلا المظالم فإني آخذ للمظلوم منه . قال : أي رب إن شئت أعطيت المظلوم من الجنة وغفرت للظالم فلم يجب عشيته فلما أصبح بالمزدلفة أعاد الدعاء فأجيب إلى ما سأل . قال : فضحك رسول الله صلى الله عليه و سلم أو قال تبسم فقال له أبو بكر وعمر : بأبي أنت وأمي إن هذه لساعة ما كنت تضحك فيها فما الذي أضحكك أضحك الله سنك ؟ قال : إن عدو الله إبليس لما علم أن الله عز و جل قد استجاب دعائي وغفر لأمتي أخذ التراب فجعل يحشوه على رأسه ويدعو بالويل والثبور فأضحكني ما رأيت من جزعه . رواه ابن ماجه وروى البيهقي في كتاب البعث والنشور نحوه
مزدلفہ میں آنحضرت ﷺ کی دعا کی قبولیت اور ابلیس کا واویلا
حضرت عباس بن مرد اس ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے عرفہ کی شام کو اپنی امت کے لئے بخشش کی دعا مانگی، جو قبول کی گئی اور حق تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے آپ ﷺ کی امت کو بخش دیا۔ علاوہ بندوں کے حقوق کے کہ میں ظالم سے مظلوم کا حق لوں گا۔ آنحضرت ﷺ نے عرض کیا کہ میرے پروردگار! اگر تو چاہے تو مظلوم کو اس حق کے بدلہ میں کہ جو ظالم نے کیا ہے جنت کی نعمتیں عطا فرما دے اور ظالم کو بھی بخش دے۔ مگر عرفہ کی شام کو یہ دعا قبول نہیں کی گئی، جب مزدلفہ میں صبح ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے پھر وہی دعا کی اور آپ ﷺ نے جو چیز مانگی وہ عطا فرما دی گئی راوی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ ہنسے یا راوی نے یہ کہا کہ آپ ﷺ مسکرائے۔ (یہ دیکھ کر) حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ نے کہا کہ میرا باپ اور میری ماں آپ پر قربان! یہ ایسا وقت ہے جس میں آپ ﷺ ہنستے نہیں تھے۔ (یعنی یہ وقت ہنسنے کا تو نہیں ہے) پھر کس چیز نے آپ ﷺ کو ہنسایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ ﷺ کے دانتوں کو ہنستا رکھے (یعنی اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے) آنحضرت ﷺ نے فرمایا دشمن اللہ ابلیس کو جب یہ معلوم ہوا کہ اللہ بزرگ و برتر نے میری دعا قبول کرلی ہے اور میری امت کو بخش دیا تو اس نے مٹی لی اور اسے اپنے سر پر ڈالنے لگا اور واویلا کرنے اور چیخنے چلانے لگا چناچہ اس کی بدحواسی اور اضطراب نے مجھے ہنسنے پر مجبور کردیا۔ (ابن ماجہ، بیہقی)

تشریح
چونکہ اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امت کو مغفرت عام سے نواز اس گیا ہے کہ حقوق اللہ بھی بخش دئیے ہیں اور حقوق العباد بھی اس لئے بہتر یہ ہے کہ حدیث کے مفہوم میں یہ قید لگا دی جائے کہ اس مغفرت عام کا تعلق ان لوگوں کے ساتھ جو اس سال حج کے موقع پر آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھے، یا یہ بات اس شخص کے حق میں ہے جس کا حج مقبول ہو بایں طور کہ اس کے حج میں فسق و فجور کی کوئی بات نہ ہو۔ یا پھر یہ کہ مفہوم اس ظالم پر محمول ہے جس کو توبہ کی توفیق ہوئی اور اس نے صدق نیت اور اخلاص کے ساتھ توبہ کی مگر حق کی واپسی سے عاجز و معذور رہا۔ پھر یہ کہ رحمت الٰہی جسے چاہے اپنے دامن میں چھپا سکتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔ آیت (ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشاء)۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں کرتے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے ہاں مشرک کے علاوہ جس کو چاہے گا بخش دے گا۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی (رح) آنحضرت ﷺ کی شفاعت اور مغفرت عام کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی شفاعت ہر مسلمان کو حاصل ہوگی خواہ وہ صالح ہو یا گنہگار اور اس کی صورت یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کی شفاعت کی وجہ سے جنت میں صالح اور نیکو کار لوگوں کے تو درجات بلند کرے گا اور اکثر گنہگاروں کو بخش کر جنت میں داخل کرے گا۔ اب رہ گئے وہ لوگ جو دوزخ میں ہوں گے تو ان کے حق میں آنحضرت ﷺ کی شفاعت کا اثر یہ ہوگا کہ ان کے عذاب میں تخفیف اور مدت عذاب میں کمی کردی جائے گی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور بخشش بھی انشاء اللہ ہر مسلمان کو حاصل ہوگی خواہ وہ صالح ہو یا گنہگار۔ بایں طور کہ جنت میں صالح و نیکوکاروں کے درجات اس جزاء و انعام سے زیادہ بلند ہوں گے جس کا وہ اپنے نیک اعمال کی وجہ سے مستحق ہوگا۔ اور فاجر و گنہگار کے حق میں اس کی مغفرت یہ ہوگی کہ یا تو انہیں اپنے فضل و کرم سے بغیر عذاب ہی کے جنت میں داخل کر دے گا یا پھر ان کے عذاب کی شدت میں کمی کر دے گا جو مغفرت ہی کی ایک نوع ہے۔
Top