مشکوٰۃ المصابیح - سر منڈانے کا بیان - حدیث نمبر 2711
وعن عائشة رضي الله عنها قالت : نزول الأبطح ليس بسنة إنما نزله رسول الله صلى الله عليه و سلم لأنه كان أسمح لخروجه إذا خرج
ابطح میں قیام سنت ہے یا نہیں ؟
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ ابطح میں اترنا یعنی ٹھہرنا سنت نہیں ہے اور نبی کریم ﷺ تو وہاں صرف اس لئے اترے تھے کہ مکہ سے چلنے میں آسانی ہو جب کہ آپ ﷺ وہاں سے واپس ہوئے تھے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
حضرت عائشہ ؓ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ جب تیرہویں ذی الحجہ کو منیٰ سے لوٹے تو ابطح یعنی محصب میں صرف اس غرض سے ٹھہر گئے تھے تاکہ وہاں اپنا سامان وغیرہ چھوڑ کر مکہ جائیں اور وہاں طواف الوداع کریں اور جب مکہ سے مدینہ واپس ہوں تو اس وقت سامان وغیرہ ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے آسانی ہو۔ اس بارے میں جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے تو اس میں اختلاف ہے، بعض حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ تحصب یعنی محصب میں ٹھہرنا سنت ہے اور افعال حج کا ایک تتمہ ہے۔ یہ حضرت ابن عمر ؓ کا قول ہے، ان کے نزدیک قیام محصب کے مسنون ہونے کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے منیٰ میں فرمایا تھا کہ کل ہم انشاء اللہ خیف بنی کنانہ یعنی محصب میں ٹھہریں گے اور اس کا سبب یہ تھا کہ خیف بنی کنانہ ہی وہ جگہ ہے جہاں مشرکین مکہ نے آنحضرت ﷺ کی مکی زندگی میں باہم یہ عہد و پیمان کیا تھا اور یہ قسم کھائی تھی کہ ہم بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب یعنی ان دونوں خاندانوں کے لوگوں سے میل جول، نکاح بیاہ، خریدو فروخت اور ان میں اٹھنا بیٹھنا اس وقت تک چھوڑے رہیں گے جب تک یہ لوگ محمد کو ہمارے سپرد نہ کردیں گے گویا اس مقام پر انہوں نے ان خاندانوں سے مکمل مقاطعہ اور بائیکاٹ کا اعلان کر کے شعائر کفر کا اظہار کیا تھا۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی قوت کو غالب فرمایا اور کفر و شرک کا پھیلاؤ دور ہوا تو آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقوع پر منیٰ سے مکہ کو واپس ہوتے ہوئے یہ چاہا کہ اس جگہ یعنی خیف بنی کنانہ (محصب) میں ٹھہر کر شعائر اسلام کو ظاہر کریں جہاں کچھ ہی سال پیشتر کفار نے شعائر کفر کو ظاہر کیا تھا اور اس طرح وہاں اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا شکر ادا کیا جو اس نے اسلام کو غلبہ اور عظمت دے کر عطا فرمائی تھیں۔ طبرانی نے اوسط میں حضرت عمر فاروق ؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یوم النفر کی رات میں ابطح میں ٹھہرنا منجملہ سنت ہے، نیز یہ کہ حضرت عمر فاروق ؓ لوگوں کو اس رات میں ابطح میں ٹھہرنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ فقہ حنفی کی مشہور تین کتاب ہدایہ میں لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ ابطح میں اس مقصد سے قیام فرماتے تھے کہ مشکرین کو اللہ تعالیٰ کی قدرت دکھائیں کہ کل جس جگہ انہوں نے مکمل مقاطعہ کا عہد و پیمان کر کے اپنی برتری کا اظہار کیا تھا آج وہی جگہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں کے زیر تسلط ہے، چناچہ اس جگہ رات میں قیام سنت ہے۔ اس کے برخلاف، بعض حضرات کہتے ہیں کہ محصب میں قیام سنت نہیں ہے کہ کیونکہ وہاں آنحضرت ﷺ کا قیام محض اتفاقی طور پر ہوگیا تھا جس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ آنحضرت ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ابورافع جو آنحضرت ﷺ کے سامان سفر کے نگران تھے اپنی رائے سے اور اتفاقی طور پر وہاں رک گئے اور آپ ﷺ کا خیمہ نصب کردیا، اس بارے میں آنحضرت ﷺ کا کوئی حکم نہیں تھا۔ قیام محصب کو سنت نہ کہنے والوں میں حضرت ابن عباس ؓ کے علاوہ حضرت عائشہ ؓ بھی ہیں جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا۔ بہرکیف اس بارے میں بہتر بات یہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کا محصب میں ٹھہرنا منقول ہے چاہے وہ ٹھہرنا اتفاقی طور پر ہی کیوں نہ رہا ہو تو اچھا یہی ہے کہ وہاں قیام کرلیا جائے جیسا کہ دیگر صحابہ اور خلفاء راشدین بھی اس پر عمل کرتے تھے اور اگر کوئی شخص وہاں نہ ٹھہرے تو اس میں کوئی نقصان بھی نہیں ہے۔
Top