مشکوٰۃ المصابیح - حرم مکہ کی حرمت کا بیان - حدیث نمبر 2763
عن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم يوم فتح مكة : لا هجرة ولكن جهاد ونية وإذا استنفرتم فانفروا . وقال يوم فتح مكة : إن هذا البلد حرمه الله يوم خلق السماوات والأرض فهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة وإنه لم يحل القتال فيه لأحد قبلي ولم يحل لي إلا ساعة من نهار فهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة لا يعضد شوكه ولا ينفر صيده ولا يلتقط لقطته إلا من عرفها ولا يختلى خلاها . فقال العباس : يا رسول الله إلا الأذخر فإنه لقينهم ولبيوتهم ؟ فقال : إلا الأذخر وفي رواية لأبي هريرة : لا يعضد شجرها ولا يلتقط ساقطتها إلا منشد
حرم مکہ کی فضیلت
حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا کہ اب مکہ سے مدینہ کو ہجرت فرض نہیں ہے البتہ جہاد اور عمل میں نیت کا اخلاص ضروری ہے لہٰذا جب تمہیں جہاد کے لئے بلایا جائے یعنی تمہارا امیر تمہیں جو جہاد کا حکم دے تو جہاد کے لئے نکل کھڑے ہو۔ نیز آپ ﷺ نے فتح مکہ ہی کے دن یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس شہر یعنی تمام زمین حرم کو حرام کیا ہے بایں طور کہ تمام لوگوں پر اس مقدس خطہ زمین کی ہتک و بےحرمتی حرام ہے اور اس کی تعظیم واجب ہے اسی دن سے جب کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا یعنی اس خطہ زمین کی حرمت شروع ہی سے ہے لہٰذا یہ خطہ زمین اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی حرمت کے سبب قیامت تک کے لئے حرام کیا گیا بلاشہ اس خطہ زمین میں نہ تو مجھ سے پہلے کسی کے لئے قتل و قتال حلال کیا گیا تھا اور نہ میرے لئے حلال ہوا ہے علاوہ فتح مکہ کے دن کی ایک ساعت کے پس اس دن کے بعد یہ خطہ زمین اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی حرمت کے سبب قیامت کے دن پہلا صور پھونکے جانے تک ہر شخص کے لئے حرام کردیا گیا ہے لہٰذا نہ تو اس زمین کا کوئی خاردار درخت ہی کاٹا جائے اگرچہ وہ ایذاء دے نہ اس کا شکار بہکایا جائے یعنی کوئی شکار کی غرض سے یا محض بھڑکانے ستانے کے لئے یہاں کے کسی جانور کے ساتھ تعرض نہ کرے اور نہ یہاں کا لقطہ اٹھایا جائے ہاں وہ شخص اس کو اٹھا سکتا ہے جو اس کا اعلان کرے اور نہ اس کی زمین کی گھاس کاٹی جائے۔ حضرت عباس ؓ نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مگر اذخر (ایک قسم کی گھاس) تو ایسی چیز ہے جو لوہاروں اور سناروں کے لئے لوہا اور سونا گلانے کے کام آتی ہے اور گھروں کی چھتیں بنانے میں اس کی ضرورت پڑتی ہے اس کو کاٹنے کی اجازت دے دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں! اذخر کاٹی جاسکتی ہے۔ (بخاری ومسلم) اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ نہ یہاں کا درخت کاٹا جائے اور نہ یہاں کی گری پڑی کوئی چیز اٹھائی جائے البتہ اس کے مالک کو تلاش کرنے والا اٹھا سکتا ہے۔

تشریح
آنحضرت ﷺ جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو اس وقت ہجرت ہر اس شخص پر فرض تھی جو اس کی استطاعت رکھتا تھا۔ پھر جب مکہ فتح ہوگیا تو اس ہجرت کا سلسلہ منقطع ہوگیا جو فرض تھی کیونکہ اس کے بعد مکہ دارالحرب نہیں رہا تھا لہٰذا ارشاد گرامی اب ہجرت نہیں الخ، کا مطلب یہی ہے کہ اگر اب کوئی ہجرت کرے تو اسے وہ درجہ حاصل نہیں ہوگا جو مہاجرین کو حاصل ہوچکا ہے البتہ جہاد اور اعمال میں حسن نیت کا اجر اب بھی باقی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گا، اسی طرح وہ ہجرت بھی باقی ہے جو اپنے دین اور اسلام کے احکام و شعائر کی حفاظت کے لئے ہوتی ہے اور اس کا اجر بھی ملتا ہے۔ نہ کوئی خاردار درخت کاٹا جائے اس سے معلوم ہوا کہ بغیر خاردار درخت کو کاٹنا تو بدرجہ اولیٰ جائز نہیں ہوگا ہدایہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص زمین حرم کی ایسی گھاس یا ایسا درخت کاٹے جو کسی کی ملکیت میں نہ ہو اور خود رو ہو تو اس پر اس گھاس یا درخت کی قیمت بطور جزاء واجب ہوگی، البتہ خشک گھاس کاٹنے کی صورت میں قیمت واجب نہیں ہوتی لیکن اس کا کاٹنا بھی درست نہیں ہے۔! زمین حرم کی گھاس کو چرانا بھی جائز نہیں ہے، البتہ اذخر کو کاٹنا بھی جائز ہے اور چرانا بھی، اسی طرح کماۃ یعنی کھنبی (ایک قسم کا خود رو ساگ) بھی مستثنی ہے کیونکہ یہ نباتات میں سے نہیں ہے! حضرت امام شافعی کے مسلک میں زمین حرم کی گھاس میں جانوروں کو چرانا بھی جائز ہے۔ لقطہ اس چیز کو کہتے ہیں جو کہیں گری پڑی پائی جائے اور اس کا مالک معلوم نہ ہو۔ زمین حرم کے علاوہ عام طور پر لقطہ کا حکم تو یہ ہے کہ اس کو اٹھانے والا عام لوگوں میں یہ اعلان کراتا رہے کہ میں نے کسی کی کوئی چیز پائی ہے جس شخص کی ہو وہ حاصل کرلے۔ اگر اس اعلان کے بعد بھی اس چیز کا مالک نہ ملے تو وہ شخص اگر خود نادار و مستحق ہو تو اسے اپنے استعمال میں لے آئے اور اگر نادار نہ ہو تو پھر کسی نادار کو بطور صدقہ دے دے پھر اگر بعد میں اس کا مالک مل جاے تو اس کو اس کی قیمت ادا کرے لیکن زمین حرم کے لقطہ میں، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا، یہ بات نہیں ہے بلکہ صرف اعلان ہے جب تک کہ اس کا مالک نہ مل جائے یعنی جب تک اس کے مالک کا پتہ نہ لگے اس وقت تک اس کا اعلان کیا جاتا رہے اور مالک کا انتظار کیا جائے، اس کو آخر تک نہ تو اپنے استعمال میں لاسکتا ہے نہ کسی کو بطور صدقہ دیا جاسکتا ہے اور نہ اپنی ملکیت بنایا جاسکتا ہے، چناچہ حضرت امام شافعی کا یہی مسلک ہے لیکن اکثر علماء کے نزدیک حرم اور غیر حرم کے لقطہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے حنفیہ کا مسلک بھی یہی ہے، ان کی دلیل وہ احادیث ہیں جن میں مطلق طور پر لقطہ کا حکم بیان کیا گیا ہے جو انشاء اللہ لقطہ کے باب میں آئیں گی۔ حدیث کے الفاظ الا من عرفہا کا مطلب ان علماء کے نزدیک یہ ہے کہ زمین حرم کے لقطہ کو اٹھانے والا پورے ایک برس تک مکہ میں اس کا اعلان کرتا کراتا رہے جیسا کہ اور جگہ کرتے ہیں، اعلان کو صرف ایام حج کے ساتھ مخصوص نہ کرے، گویا حدیث کے اس جملہ کا حاصل یہ ہوا کہ زمین حرم کے لقطہ کے بارے میں کسی کو یہ غلط فہمی و گمان نہ ہونا چاہئے کہ وہاں اس کا اعلان صرف ایام حج ہی کے دوران کرنا کرانا کافی ہے۔
Top