مشکوٰۃ المصابیح - ابن صیاد کے قصہ کا بیان - حدیث نمبر 5402
عن عبد الله بن عمر أن عمر بن الخطاب انطلق مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في رهط من أصحابه قبل ابن الصياد حتى وجدوه يلعب مع الصبيان في أطم بني مغالة وقد قارب ابن صياد يومئذ الحلم فلم يشعر حتى ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم ظهره بيده ثم قال أتشهد أني رسول الله ؟ فقال أشهد أنك رسول الأميين . ثم قال ابن صياد أتشهد أني رسول الله ؟ فرصه النبي صلى الله عليه وسلم ثم قال آمنت بالله وبرسله ثم قال لابن صياد ماذا ترى ؟ قال يأتيني صادق وكاذب . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم خلط عليك الأمر . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إني خبأت لك خبيئا وخبأ له ( يوم تأتي السماء بدخان مبين ) فقال هو الدخ . فقال اخسأ فلن تعدو قدرك . قال عمر يا رسول الله أتأذن لي في أن أضرب عنقه ؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن يكن هو لا تسلط عليه وإن لم يكن هو فلا خير لك في قتله . قال ابن عمر انطلق بعد ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بن كعب الأنصاري يؤمان النخل التي فيها ابن صياد فطفق رسول الله صلى الله عليه وسلم يتقي بجذوع النخل وهو يختل أن يسمع من ابن صياد شيئا قبل أن يراه وابن صياد مضطجع على فراشه في قطيفة له فيها زمزمة فرأت أم ابن صياد النبي صلى الله عليه وسلم وهو يتقي بجذوع النخل . فقالت أي صاف وهو اسمه هذا محمد . فتناهى ابن صياد . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لو تركته بين . قال عبد الله بن عمر قام رسول الله صلى الله عليه وسلم في الناس فأثنى على الله بما هو أهله ثم ذكر الدجال فقال إني أنذركموه وما من نبي إلا وقد أنذر قومه لقد أنذر نوح قومه ولكني سأقول لكم فيه قولا لم يقله نبي لقومه تعلمون أنه أعور وأن الله ليس بأعور . متفق عليه .
ابن صیاد کے ساتھ ایک واقعہ
اور حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ( ایک دن) حضرت عمر فاروق ابن خطاب ؓ صحابہ کرام کی ایک جماعت میں شامل ہو کر رسول کریم ﷺ کے ساتھ ابن صیاد کے پاس گئے اور انہوں نے اس کو ( یہودیوں کے ایک قبیلہ) بنو مغالہ کے محل میں بچوں کے ساتھ کھیلتا ہوا پایا، وہ اس وقت سن بلوغ کے قریب ہوچکا تھا، ابن صیاد ان سب کی آمد سے بیخبر ( اپنے کھیل میں مصروف) رہا یہاں تک کہ رسول کریم ﷺ نے اس کی پشت پر ہاتھ مارا اور ( جب وہ متوجہ ہوا تو آپ ﷺ نے اس سے سوال کیا کہ کیا تو اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے ( یہ سن کر بڑی غصیلی نظروں سے) آپ ﷺ کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم امیوں یعنی ناخواندہ لوگوں کے رسول ہو اور پھر اس نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ آنحضرت ﷺ نے اس کو (پکڑ لیا) اور خوب زور سے بھینچا اور فرمایا میں اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا اس کے بعد آپ ﷺ نے اس سے پوچھا کہ ( اچھا یہ بتا) تو کیا دیکھتا ہے یعنی غیب کی چیزوں سے تجھ پر کیا منکشف ہوتا ہے؟ اس نے جواب دیا کبھی تو میرے پاس سچی خبر آتی ہے اور کبھی تو میرے پاس سچا فرشتہ آتا ہے اور کبھی جھوٹا شیطان رسول کریم ﷺ نے اس کا یہ جواب سن کر) فرمایا کہ تیرا معاملہ سب گڈمڈ ہوگیا پھر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تیرے لئے اپنے دل میں ایک بات چھپائی ہے اور جو بات آپ ﷺ نے ابن صیاد کے لئے چھپائی تھی وہ یہ آیت (فَارْتَ قِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَا ءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ ) 44۔ الدخان 10) تھی اس نے جواب دیا کہ وہ پوشیدہ بات ( جو تمہارے دل میں سے) دخ ہے آنحضرت ﷺ نے ( یہ سن کر) فرمایا دور ہٹ! تو اپنی اوقات سے آگے ہرگز نہیں بڑھ سکے گا حضرت عمر فاروق ؓ نے ( یہ صورت حال دیکھ کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! اگر آپ ﷺ مجھے اجازت دیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ابن صیاد اگر وہی دجال ہے ( جس کے آخر زمانہ میں نکلنے کی اطلاع دی گئی ہے) تو پھر تم اس پر مسلط نہیں ہو سکو گے یعنی اس کو قتل کرنے پر قادر نہیں ہو سکو گے کیونکہ اس کو قتل کرنا تو صرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لئے مقدر ہے) اور اگر یہ وہ نہیں ہے تو پھر اس کو قتل کرنے میں تمہارے لئے کوئی بھلائی نہیں) حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ( ایک دن) رسول کریم ﷺ کھجور کے ان درختوں کے پاس تشریف لے گئے جہاں ابن صیاد تھا اس وقت آپ کے ساتھ حضرت ابی ابن کعب انصاری ؓ بھی تھے، رسول کریم ﷺ ( وہاں پہنچ کر) کھجور کی شاخوں کے پیچھے چھپنے لگے تا ابن صیاد ( اپنے قریب آپ ﷺ کی موجودگی سے) بیخبر رہے اور آپ ﷺ اس کے دیکھنے سے پہلے اس کی کچھ باتیں سن لیں اور اس طرح چھپ کر ابن صیاد کی باتوں کو سننے سے آپ ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ خود آپ ﷺ بھی اور صحابہ کرام بھی جان لیں کہ وہ آخر ہے کیا آیا کوئی کاہن ہے یا جادوگر یا کچھ اور؟ اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص سے فتنہ پردازی کا خوف ہو اس کی حقیقت کو ظاہر کرنا اور لوگوں پر اس کے احوال منکشف کرنا جائز ہے) اس وقت ابن صیاد ایک چادر میں لپٹا ہوا لیٹا تھا اور اس چادر کے اندر سے گنگنانے کی آواز آرہی تھی ( جس کا کوئی مفہوم سمجھ میں آتا تھا) ( دیکھ کر) رسول کریم ﷺ نے ( صحابہ سے) فرمایا۔ اگر ابن صیاد کی ماں اس کو نہ ٹوکتی ( اور میری موجودگی سے باخبر نہ کرتی) وہ اپنی حقیقت کو ظاہر کردیتا ( یعنی اس کی باتوں سے یہ معلوم ہوجاتا وہ کون ہے اور کیا ہے) حضرت عبداللہ ( ابن عمر کہتے ہیں کہ اس کے بعد جب) رسول کریم ﷺ ( خطبہ دینے کے لئے) لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے تو پہلے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کی جو اس کو سزاوار ہے، پھر دجال کا ذکر کیا ( بایں احتمال کہ شاید ابن صیاد دجال ہو یا آپ ﷺ نے اس کی فتنہ پردازی اور اس حقیقت کے پیش نظر کہ اس میں دجال کی بعض خصلتیں پائی جاتی تھیں دجال کا ذکر کرنا اور اس کے احوال سے آگاہ کرنا مناسب جانا) اور فرمایا میں تمہیں دجال سے ڈراتا ہوں اور نوح (علیہ السلام) کے بعد کوئی نبی ﷺ ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو دجال سے نہ ڈرایا ہو اور ( ان انبیاء سے پہلے) نوح (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا ہے لیکن میں تم سے دجال کے بارے میں ایک ایسی بات اور ایک ایسی علامت بتاتا ہوں جو کسی اور نبی ﷺ نے اپنی قوم سے نہیں بتائی ہے، سو تم جان لو کہ دجال کا نا ہوگا اور یقینا اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے۔ ( بخاری ومسلم )

تشریح
امیوں سے اس کی مراد اہل عرب تھے، کیو کہ اس زمانہ میں اکثر اہل عرب پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے! اور اصل بات یہ ہے کہ یہودیوں میں سے ایک طبقہ کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ وہ آنحضرت ﷺ کی رسالت کے منکر تو نہیں تھے لیکن آپ ﷺ کو صرف اہل عرب کا رسول مانتے تھے بہر حال یہ بات ( یعنی ابن صیاد کا حضور ﷺ کی رسالت کی گواہی اس طرح دینا) اس کی ان لغو باطل باتوں میں سے ایک تھی جو شیطان کاہنوں کو القا کیا کرتا ہے، ویسے منطقی طور پر بھی اس کے یہ الفاظ زبردست تضاد وتناقض کے حامل تھے کیونکہ نبی ہر حال میں سچا ہوتا ہے خواہ وہ کسی ایک قوم و علاقہ میں مبعوث ہوا ہو یا پوری نوع انسانیت کے لئے) اور جب آنحضرت ﷺ نے اپنی نبوت عامہ کا اعلان کیا۔ اور تمام نوع انسان کو اپنی رسالت کی دعوت دی تو آپ ﷺ کی نبوت کو صرف اہل عرب کے ساتھ مخصوص کرنا سراسر باطل ٹھہرا آنحضرت ﷺ نے اس کو خوب زور سے بھینچا میں بھینچا لفظ رص کا ترجمہ ہے جو ر کے زبر اور ص کے ساتھ ہے اور جس کے اصل معنی دو چیزوں کو استوار کرنا اور آپس میں ایک دوسرے سے جوڑنا ملانا ہے اسی لئے مضبوط اور استوار بنیاد کو بنائے مرصوص کہا جاتا ہے حاصل یہ کہ حضور ﷺ نے ابن صیاد کو پکڑ کر اور اس کے اعضاء جسم کو ایک دوسرے سے ملا کر زور سے بھینچا اور علامہ نووی نے یہ لکھا ہے کہ ہمارے علاقہ میں کتاب کے جو صحیح نسخے ہیں ان میں یہ لفظ فرفضہ یعنی ف اور ض کے ساتھ ہے، جو رفض سے ہے اور جس کے معنی چھوڑنے کے ہیں اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ آپ ﷺ نے اس کے سوال و جواب اور اس کی کٹ حجتی سے صرف نظر کرلیا۔ میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا کا مطلب یہ تھا کہ میں یقینا اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور نبیوں پر ایمان لایا ہوں اور یہ بھی یقینی ہے کہ تو ان میں سے نہیں) ہاں اگر بفرض محال تو بھی ان میں سے ہوتا تو میں تجھ پر بھی ایمان لاتا! لیکن یہ فرض کرنے والی بات اسی صورت میں جائز ہوگی جب یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ نے یہ بات اپنے خاتم النبیین ہونے کے علم سے پہلے کہی تھی، اگر اس وقت آپ کا خاتم النبیین ہونا آپ ﷺ کے علم میں تھا تو یہ بفرض محال والی بات مراد نہیں لی جاسکتی اس مسئلہ کی نزاکت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی شخص نبوت کا دعوی کرے اور کوئی اور شخص اس سے معجزہ کا مطالبہ کرنے کے باوجود اس کو اس لئے قتل نہیں کیا کہ اول تو وہ بہت چھوٹی عمر کا تھا اور چھوٹی عمر والوں کو قتل کرنا حضور ﷺ کے لئے ممنوع تھا، دوسرے یہ کہ یہودی ان دنوں ذمی تھے اور حضور ﷺ سے انہوں نے اس بات پر صلح کر رکھی تھی کہ ان کے حال پر رہنے دیا جائے گا اور ظاہر ہے کہ ابن صیاد بھی یہودیوں ہی کا ایک فرد تھا ان کے خلیفوں میں سے تھا، اس لئے اس کو قتل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ کبھی تو میرے پاس سچی خبر آتی اور کبھی جھوٹی خبر۔ کے بارے میں بعض شارحین نے کہا ہے کہ ابن صیاد سے حضور ﷺ کے سوال کا حاصل یہ تھا کہ جو شخص تیرے پاس آتا ہے وہ تجھ سے کیا کہتا ہے اور اس کی کہی ہوئی باتیں تیرے لئے کیسی ثابت ہوئی ہیں؟ ابن صیاد نے مذکورہ جملہ کے ذریعہ اس سوال کا جواب دیا اس کا حاصل یہ تھا کہ ایک آنے والا مجھے کچھ باتیں بتاتا جاتا ہے، ان میں سے کوئی سچی ہوجاتی ہے اور کوئی جھوٹی چناچہ کاہنوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ شیطان ان پر جھوٹی سچی، ہر طرح کی خبریں القا کرتا ہے۔ تیرا معاملہ سب گڈمڈ ہوگیا مطلب یا تو یہ تھا کہ تیرے پاس چیزوں اور اطلاعات کا تو ذخیرہ ہے وہ سب بیکار اور لاحصل ہے کیونکہ ان میں سے سچی باتیں بھی جھوٹی باتوں کے ساتھ مل کر کرنا قابل اعتبار ہوگئی ہیں یا یہ مطلب تھا کہ تیری حیثیت اور تیرے احوال کو ناقابل اعتماد بنادیا گیا ہے کیونکہ تیرے پاس تو شیطان آتا ہے جو تجھے جھوٹی سچی خبریں سنا جاتا ہے اس بات کے ذریعہ گویا حضور ﷺ نے اس کے دعویٰ رسالت کو جھوٹا قرار دیا کیونکہ کسی رسول کے پاس جھوٹی خبریں نہیں آیا کرتیں جب کہ اس نے خود اپنی زبان سے اس کا اقرار کیا، لہٰذا آپ ﷺ نے واضح کردیا کہ تو صرف کاہن ہے اور کاہنوں کا یہی حال ہوا کرتا ہے۔ تو رسول و نبی ہرگز نہیں ہوسکتا۔ میں نے تیرے لئے دل میں ایک بات چھپائی ہے یعنی تجھے اگر یہ دعوی ہے کہ تجھ پر خدائی راز تک منکشف ہوجاتے ہیں اور کوئی شخص آکر تجھے غیب کی باتیں بتا کرجاتا ہے تو ذرا یہ بتا کہ اس وقت میرے دل میں کیا ہے، میں نے تیرے تعلق سے ایک بات اپنے دل میں رکھی ہے؟ اس بات کے ذریعہ حضور ﷺ نے ابن صیاد کا امتحان لیا تاکہ صحابہ کرام پر اس کی حقیقت واضح ہوجائے اور وہ جان لیں کہ یہ نرا کاہن ہے شیطان اس کے پاس آکر اس کو جھوٹی سچی باتیں سکھا جاتا ہے۔ وہ پوشیدہ بات دخ ہے د کے پیش اور زبر کے اور خ کے تشدید کی ساتھ دخ کے معنی دھوئیں کے ہیں! ابن صیاد اس پوری آیت کو تو بتانے میں کامیاب نہیں ہوسکا جو آنحضرت ﷺ نے اپنے دل میں سوچ رکھی تھی، البتہ اس نے اس آیت کا ایک ناقص لفظ ضرور بتادیا اس بات سے بھی اس کا کاہن ہونا ثابت ہوگیا کیونکہ کہانت میں یہی ہوتا ہے کہ شیطان کسی بات کا کوئی ایک ادھورا اور ناقص جز اڑا کرلے آتا ہے اور اس کو کاہنوں کے دل میں ڈال دیتا ہے اور یہ احتمال بھی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس وقت آہستہ سے صحابہ کو بتایا ہو کہ میں نے یہ آیت اپنے دل میں سوچی ہے اور شیطان نے بھی یہ بات سن لی ہو اور پھر اس نے ابن صیاد کو اس کا القا کردیا ہو۔ دور ہٹ تو اپنی اوقات سے آگے ہرگز نہیں بڑھ سکتا دور ہٹ لفظ اخساء کا ترجمہ ہے جس کے ذریعہ اہانت و حقارت کا اظہار کیا جاتا ہے اور عام طور پر کتے اور سور کے لئے اس کا استعمال ہوتا ہے کہ کسی کتے اور سور کو ہانکنے اور لوگوں سے دور ہٹانے کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے بہر حال جب ابن صیاد کی حقیقت واضح ہوگئی کہ اس کا حال وہی ہے جو کاہنوں کا ہوتا ہے کہ وہ شیطان کے القا کرنے کے سبب کچھ ادھوری باتیں معلوم ہوگئیں، تو بس کاہن ہی ہے اور کاہن ہی رہے گا اس سے آگے تو ہرگز نہیں بڑھ سکتا، اپنی حد میں رہنا اور آئندہ رسالت کا دعوی کرنے کی جرأت نہ کرنا کہ وہ میرا مقام ہے۔ اس کو قتل کرنے میں تمہارے کوئی بھلائی نہیں ہے کا مطلب یہ تھا کہ یہ چونکہ ذمی ہے اور ان یہودیوں میں سے ہے جو اہل ذمہ ہیں، علاوہ ازیں ایک نابالغ اور چھوٹی عمر کا بھی ہے اس لئے اس کو قتل کرنا کوئی فائدہ کی بات نہیں ہے چونکہ بعض قرائن ابن صیاد کے دجال ہونے پر دلالت کرتے تھے اس لئے آپ نے بطور شک یہ بات ارشاد فرمائی کہ یہ واقعی دجال ہے تو تم اس کو قتل کرنے پر قادر نہیں ہو سکو گے اور اگر یہ دجال نہیں ہے تو پھر اس کو قتل کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔ اور یقینا اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے یعنی وہ دوسرے سے حاسہ بینائی ہی سے پاک ومنزہ ہے چہ جائیکہ اس کی ذات میں کانے پن جیسا کوئی عیب ہو واضح رہے کہ حضور ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ کسی نبی نے اپنی قوم کو یہ نہیں بتایا کہ دجال کانا ہے تو اس بارے میں یہ احتمال ہے کہ آنحضرت ﷺ کے علاوہ کسی اور نبی کو دجال کے احوال کا اتنا تفصیلی علم ہی نہیں تھا کہ دجال کانا ہوگا یا کیسا ہوگا؟ یا یہ کہ یہ علم تو ہر نبی کو ہوگا مگر کسی نے اپنی قوم کو یہ نہیں بتایا کہ دجال کانا ہوگا۔
Top