مشکوٰۃ المصابیح - حضرت عیسی علیہ السلام کے نازل ہونے کا بیان - حدیث نمبر 5414
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم والذي نفسي بيده ليوشكن أن ينزل فيكم ابن مريم حكما عدلا فيكسر الصليب ويقتل الخنزير ويضع الجزية ويفيض المال حتى لا يقبله أحد حتى تكون السجدة الواحدة خيرامن الدنيا وما فيها . ثم يقول أبو هريرة فاقرؤا إن شئتم وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته الآية . متفق عليه
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کا ذکر
اور ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یقینا عیسیٰ ابن مریم ( آسمان سے تمہارے درمیان اتریں گے جو ایک عادل حاکم ہوں گے وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے۔ سور کو مار ڈالیں گے ( یعنی اس کو پالنا اور کھانا مطلق حرام و ممنوع اور اس کو مار ڈالنا مباح کردیں گے) جزیہ کو اٹھا دیں گے ( ان کے زمانہ میں) مال و دولت کی فراوانی ہوگی یہاں تک کہ کوئی اس کا خواہشمند نہ رہے گا۔ اور اس وقت ایک سجدہ دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہوگا ( اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد) حضرت ابوہریرہ ؓ کہا کرتے تھے کہ اگر تم اس بات میں کوئی شک و شبہ رکھتے ہو اور دلیل حاصل کرنا) چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھو (وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِه قَبْلَ مَوْتِه) 4۔ النساء 159) یعنی کوئی اہل کتاب ( خواہ وہ یہودی ہو یا عیسائی) ایسا باقی نہیں رہے گا جو عیسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی وفات سے پہلے ایمان نہ لے آئے گا۔ ( بخاری ومسلم )

تشریح
صلیب اصل میں دو مثلث لکڑیوں کا نام ہے جو جمع کی شکل میں ہوتی ہیں اور یہ شکل ایسا ظاہر کرتی ہے جیسے کسی شخص کو سولی پر لٹکا رکھا ہو۔ عیسائیوں کا عقیدہ چونکہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی پر چڑھا دیا گیا تھا اور پھر اللہ نے ان کو زندہ کر کے اپنے پاس آسمان پر بلا لیا اس اس لئے انہوں نے سولی کی اس شکل کو اپنا مذہبی نشان بنا لیا ہے اور یہ مذہبی نشان ان کی ہر چیز میں نمایاں رہتا ہے اور جس طرح اہل ہنود اپنے گلے میں زنار ڈالتے ہیں اسی طرح عیسائی بھی سولی کا یہ نشان اپنے گلے میں لٹکاتے ہیں بعض تو اس نشان پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصویر تک بنوا لیتے ہیں تاکہ ان کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی پر چڑھائے جانے کی یاد گار مکمل صورت میں رہے لہٰذا وہ صلیب کو توڑ ڈلایں گے سے مراد یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)، نصرانیت ( یعنی عیسائی مذہب) کو باطل اور کالعدم قرار دیدیں گے اور شریعت محمدی ہی کو جاری ونافذ قرار دیں گے کہ ان کا ہر حکم و فیصلہ ملت حنفیہ کے مطابق ہوگا۔ جزیہ کو اٹھا دیں گے کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی نظام حکومت اور اس کے شرعی دستور کی جو ایک شق یہ ہے کہ اس کی حدود مملکت میں اگر کوئی غیر مسلم رہنا چاہے تو وہ ایک مخصوص ٹیکس جس کو جزیہ کہتے ہیں ادا کرکے جان ومال کی حفاظت کے ساتھ رہ سکتا ہے اور اس کو ذمی کہا جاتا ہے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جزیہ کی یہ شق ختم کردیں گے اور یہ قانون نافذ کریں گے کہ ان کی مملکت اسلامی کا شہری صرف مسلمان ہوسکتا ہے چناچہ وہ حکم دیں گے کہ جتنے ذمی ہیں وہ سب مسلمان ہوجائیں ان کی حکومت کسی سے بھی دین حق کے علاوہ اور کوئی چیز قبول نہیں کرے گی اور چونکہ اس وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی برکت سے ہر شخص کا ذہن وفکر خیر کی طرف مائل ہوگا اس لئے تمام غیر مسلم ایمان لے آئیں گے پس اس جملہ کا حاصل بھی یہی ہے کہ وہ عیسائیت اور اس کے احکام وآثار کو بالکل مٹا دیں گے اور صرف اسلامی شریعت کو جاری ونافذ قرار دیں گے! اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ذمیوں سے جزیہ اس لئے اٹھائیں گے کہ ان کے زمانہ میں مال و دولت کی فراوانی اور اہل حرص کی کمی کی وجہ سے ایسا کوئی محتاج وضروتمند نہیں رہے گا جو ان سے جزیہ کا مال لینے والا ہو اس کی تائید آگے کی عبارت ( ان کے زمانہ میں) مال و دولت کی فراوانی ہوگی الخ سے ہوتی ہے۔ حتی لا بقیلہ احد حتی تکون السجدۃ الخ میں پہلا حتی تو یفیض المال سے متعلق ہے اور دوسرا حتی ان تمام مضامین سے متعلق ہے جو پہلے مذکور ہوئے ہیں یعنی صلیب توڑ ڈالنا وغیرہ! پس مطلب یہ ہے کہ دین اسلام اس طرح پھیل جائے گا اور اطاعت و عبادت کے ذریعہ آپس میں میل و محبت اس طرح پیدا ہوجائے گی کہ ایک سجدہ دنیا کی تمام متاع سے بہتر اور قیمتی سمجھا جائے گا! یوں تو ہر زمانہ میں اور ہر وقت ایک سجدہ دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہوتا ہے یہ صرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کی خصوصیت نہیں ہے لیکن یہ بات صرف اسی لئے کہی گئی ہے کہ اس زمانہ میں عبادت و اطاعت دراصل انسان کی طبیعت کا جز اور نفس کا تقاضا بن جائے گی اور لوگ طبعی طور پر بھی ایک سجدہ کو دنیا کی تمام متاع سے زیادہ پسندیدہ اور بہت سمجھنے لگیں گے! تاہم یہ احتمال بھی ہے کہ دوسرا حتی بھی یفیض سے متعلق ہو، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اس وقت مال و دولت کی اس قدر فراوانی ہوگی اور ہر شخص اس طرح مستغنی وبے نیاز ہوجائے گا کہ کسی کو اس ( مال و دولت) کی کوئی رغبت و خواہش ہی نہیں رہے گی اور جب یہ صورت حال ہوگی تو مال کو خرچ کرنے کی فضیلت و پسندیدگی بھی جاتی رہے گی اور اصل ذوق ولگاؤ نماز سے باقی رہے گا کہ لوگ ایک سجدہ میں جو کیف و بھلائی محسوس کریں گے وہ دنیا کی کسی بھی چیز میں نہیں پائیں گے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے جس آیت کریمہ کا ذکر کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نازل ہونے کے بعد جب ایک ہی ملت اور ایک ہی دین کا دور دورہ ہوجائے گا اور تمام لوگوں کے درمیان سے دینی ومذہبی اختلاف ومنافرت کا خاتمہ ہوجائے گا تو یہود و نصاری کا وہ اختلاف ونفرت بھی کالعدم ہوجائے گا جو وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تئیں رکھتے ہیں۔ اور وہ ( یہود ونصاری) بھی اس ایمان و عقیدے کے حامل ہوجائیں گے جو مسلمان کا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی ایک بندی مریم کے بیٹے ہیں واضح رہے کہ اہل کتاب یعنی یہودونصاری سے مراد وہ یہود و نصاری ہیں جو اس زمانہ میں ہوں گے! اس آیت کی ایک تفسیر تو یہ ہے جو بیان کی گئی اور حضرت ابوہریرہ ؓ نے اسی اعتبار سے اس آیت کو حدیث کے مضمون کی دلیل قرار دیا ہے۔ دوسری جو تفسیر بیان کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اہل کتاب میں سے ایسا کوئی شخص نہیں جو اپنے مرنے سے پہلے ( نزع کی حالت میں) ایمان نہ لاتا ہو لیکن اس وقت کا ایمان لانا کوئی اعتبار نہیں رکھتا اس تفسیر کی روشنی میں ایک احتمال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الا لیؤمنن بہ میں بہ کی ضمیر آنحضرت ﷺ یا اللہ سبحانہ کی طرف راجع ہو اگر آیت کی یہی تفسیر مراد لی جائے تو پھر حاصل یہ نکلے گا کہ ہر کافر مرنے سے پہلے ( نزع کی حالت) اضطراری طور پر ایمان لاتا ہے لیکن اس وقت کا ایمان چونکہ کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا اس لئے چاہئے کہ وہ ( کافر اس وقت سے پہلے ہی بقصد واختیار ایمان قبول کرنے پر آمادہ ہو۔
Top