مشکوٰۃ المصابیح - حوض اور شفاعت کا بیان - حدیث نمبر 5494
وعن ابن مسعود أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : آخر من يدخل الجنة رجل يمشي مرة ويكبو مرة وتسفعه النار مرة فإذا جاؤوها التفت إليها فقال : تبارك الذي نجاني منك لقد أعطاني الله شيئا ما أعطاه أحدا من الأولين والآخرين فترفع له شجرة فيقول : أي رب أدنني من هذه الشجرة فلأستظل بظلها وأشرب من مائها فيقول الله : يا ابن آدم لعلي إن أعطيتكها سألتني غيرها ؟ فيقول : لا يا رب ويعاهده أن لا يسأله غيرها وربه يعذره لأنه يرى ما لا صبر له عليه فيدنيه منها فيستظل بظلها ويشرب من مائها ثم ترفع له شجرة هي أحسن من الأولى فيقول : أي رب أدنني من هذه الشجرة لأشرب من مائها وأستظل بظلها لا أسألك غيرها . فيقول : يا ابن آدم ألم تعاهدني أن لا تسألني غيرها ؟ فيقول : لعلي إن أدنيتك منها تسألني غيرها ؟ فيعاهده أن لا يسأله غيرها وربه يعذره لأنه يرى ما لا صبر له عليه فيدنيه منها فيستظل بظلها ويشرب من مائها ثم ترفع له شجرة عند باب الجنة هي أحسن من الأوليين فيقول : أي رب ادنني من هذه فلأستظل بظلها وأشرب من مائها لا أسألك غيرها . فيقول : يا ابن آدم ألم تعاهدني أن لا تسألني غيرها ؟ قال : بلى يا رب هذه لا أسألك غيرها وربه يعذره لأنه يرى ما لا صبر له عليه فيدنيه منها فإذا أدناه منها سمع أصوات أهل الجنة فيقول : أي رب أدخلنيها فيقول : يا ابن آدم ما يصريني منك ؟ أيرضيك أن أعطيك الدنيا ومثلها معها . قال : أي رب أتستهزئ مني وأنت رب العالمين ؟ فضحك ابن مسعود فقال : ألا تسألوني مم أضحك ؟ فقالوا : مم تضحك ؟ فقال : هكذا ضحك رسول الله صلى الله عليه و سلم . فقالوا : مم تضحك يا رسول الله ؟ قال : من ضحك رب العالمين ؟ فيقول : إني لا أستهزئ منك ولكني على ما أشاء قدير . رواه مسلم (3/213) 5583 - [ 18 ] ( صحيح ) وفي رواية له عن أبي سعيد نحوه إلا أنه لم يذكر فيقول : يا ابن آدم ما يصريني منك ؟ إلى آخر الحديث وزاد فيه : ويذكره الله : سل كذا وكذا حتى إذا انقطعت به الأماني قال الله : هو لك وعشرة أمثاله قال : ثم يدخل بيته فتدخل عليه زوجتاه من الحور العين فيقولان : الحمد لله الذي أحياك لنا وأحيانا لك . قال : فيقول : ما أعطي أحد مثل ما أعطيت
جنت میں سب سے بعد جانے والے شخص کا ذکر
اور حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنت میں سب سے آخر میں داخل ہونے والا جو شخص ہوگا وہ جب ( دوزخ سے باہر نکل کر) روانہ ہوگا تو ایک مرتبہ یعنی ایک قدم آگے چلے گا اور دوسری مرتبہ ( یعنی دوسرے قدم پر) منہ کے بل گرپڑے گا اور تیسری قدم پر) دوزخ کی آگ ( کی گرمی اور تپش) اس کے جسم کو جھلس ڈالے گی ( جس کی وجہ سے اس کے بعض اعضاء جسم جل جائیں گے اور اس کی جلد کا رنگ بدل جائے گا) پھر جب وہ ( اسی طرح گرتا پڑتا اور جھلستا ہوا) دوزخ ( کی گرمی وتپش کی زد) سے آگے گزر جائے گا تو مڑ کر ( دوزخ کی طرف) دیکھے گا اور کہے گا کہ بزرگ و برتر ہے اللہ کی ذات، جس نے مجھے تجھ سے چھٹکارا دلایا، اللہ کی قسم میرے پروردگار نے تو مجھے وہ چیز عطا کی ہے جو اس نے اگلے پچھلے لوگوں میں سے کسی کو عطا نہیں کی، پھر اس کی نظر کے سامنے ایک درخت کھڑا کیا جائے گا ( جس کے نیچے پانی کا چشمہ ہوگا) وہ ( درخت اور چشمے کو دیکھ کر) عرض کرے گا کہ میرے پروردگار! مجھے اس درخت کے قریب پہنچا دے تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کرسکوں اور اس کے چشمہ سے پانی پیوں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا ابن آدم! اگر میں تیری یہ آرزو پوری کر دوں تو ہوسکتا ہے کہ تو مجھ سے کچھ اور مانگنے لگے! وہ عرض کرے گا کہ میرے پروردگار ایسا نہیں ہوگا، اس کے بعد وہ اللہ تعالیٰ سے اس بات کا عہد کرے گا کہ وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگے گا! چونکہ وہ شخص ایک ایسی چیز دیکھے گا جو اس کو بےصبر کر دے گی، اس لئے اس کا پروردگار اس کو معذور جان کر اس سے درگزر کرے گا اور اس کو درخت کے پاس پہنچا دے گا! وہ شخص اس درخت کے سایہ میں بیٹھے گا اور اس کے چشمے سے پانی پئیے گا پھر ( اس کو اور زیادہ آگے بڑھنے کے لئے) اس کی نظر کے سامنے ایک درخت کھڑا کیا جائے گا جو پہلے درخت سے زیادہ اچھا ہوگا، وہ شخص ( اس درخت کو دیکھ کر) کہے گا کہ میرے پروردگار مجھ کو اس درخت کے پاس پہنچا دیجئے تاکہ اس کا سایہ حاصل کرسکوں اور اس کے چشمے سے پانی پیوں، نیز میں اب اس درخت کے علاوہ تجھ سے کچھ اور نہیں مانگوں گا، حق تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ ابن آدم! کیا تو نے مجھ سے یہ عہد نہیں کیا تھا کہ تو اس ( پہلے) درخت کے علاوہ کچھ اور مجھ سے نہیں مانگے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا گر میں تجھے اس درخت کے پاس بھی پہنچا دوں تو ہوسکتا ہے کہ تو مجھ سے کچھ اور مانگنے لگے، پس اس کا پروردگار اس کو معذور جان کر اس سے درگزر کرے گا کیونکہ وہ ایک ایسی چیز دیکھے گا جو اس کو بےصبر کر دیگی اور پھر اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے پاس پہنچا دے گا، وہ شخص اس درخت کے سایہ میں بیٹھے گا اور اس کے چشمہ کا پانی پیئے گا اور ( تیسرا) اور درخت اس کے سامنے کھڑا کیا جائے گا جو جنت کے دروازہ کے قریب اور پہلے دونوں درختوں سے زیادہ اچھا ہوگا، وہ شخص ( اس درخت کو دیکھ کر) کہے گا کہ میرے پروردگار! مجھے اس درخت کے پاس پہنچا دیجئے تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کرسکوں اور اس کے چشمے میں سے پانی پیوں، حق تعالیٰ اس سے فرمائے گا، ابن آدم! کیا تو نے مجھ سے یہ عہد نہیں کیا تھا کہ اس کے علاوہ کچھ اور مجھ سے نہیں مانگے گا۔ وہ عرض کرے گا کہ ہاں ( میں نے بیشک عہد کیا تھا لیکن اب یہ میرا آخری سوال ہے) اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ پس اس کا پروردگار اس کو معذور جان کر اس سے درگزر کرے گا کیونکہ وہ شخص ایک ایسی چیز دیکھے گا جو اس کو بےصبر کردے گی اور پھر اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے پاس پہنچا دے گا۔ اور جب وہ اس درخت کے پاس پہنچ جائے گا اور اس کے کان میں وہ ( دلچسپ اور مزے دار) باتیں آئیں گی جو جنتی لوگ اپنی بیویوں اور اپنے دوست و احباب سے کریں گے تو وہ شخص ( بےاختیار ہو کر) عرض کرے گا کہ میرے پروردگار! اب مجھے جنت میں بھی پہنچا دیجئے اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ابن آدم! کیا کوئی ایسی چیز ہے جو تجھ سے ( یعنی تیرے بار بار خواہش و آرزو کرنے سے) میرا پیچھا چھڑا دے؟ کیا تو اس سے بھی خوش ہوگا یا نہیں کہ میں تجھے جنت میں دنیا بھر کی مسافت کے برابر اور اسی قدر مزید جگہ تجھے دے دوں؟ وہ شخص ( انتہائی خوشی ومسرت کے عالم میں) کہے گا کہ پروردگار کہیں آپ مجھ سے مذاق تو نہیں کررہے ہیں، حالانکہ آپ تو تمام جہانوں کے پروردگار ہیں!؟ ( حدیث کے یہ الفاظ بیان کرنے کے بعد م) حضرت ابن مسعود ؓ ہنسے اور پھر حدیث سننے والوں سے) بولے کہ کیا تم یہ نہیں پوچھو گے کہ میں کیوں ہنسا؟ لوگوں نے پوچھا کہ ہاں بتائیے) آپ کیوں ہنسے تھے فرمایا اسی طرح رسول اللہ ﷺ بھی ہنسے تھے اور جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ! آپ ﷺ ہنسے کیوں؟ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں اس وجہ سے ہنسا کہ جب وہ شخص کہے گا کہ پروردگار! کہیں آپ مجھ سے مذاق تو نہیں کررہے ہیں، حالانکہ آپ تمام جہانوں کے پروردگار ہیں؟ تو پھر پروردگار عالم اس پر ہنس پڑے گا! بہر حال اللہ تعالیٰ ( اس شخص کی یہ بات سن کر) فرمائے گا کہ نہیں میں تجھ سے مذاق نہیں کررہا ہوں، ( اور خوب جانتا ہوں کہ تو اس عطاء و بخشش کا مستحق نہیں ہے) لیکن ( یہ سب تجھ کو اس لئے دے رہا ہوں کہ) میں جو چاہوں کرسکتا ہوں ( کہ ہر چیز کا مالک و مختار اور قادر مطلق میں ہی ہوں) اس روایت کو مسلم نے نقل کیا ہے! اور مسلم ہی میں ایک اور روایت حضرت ابوسعید خدری ؓ سے اسی طرح کے الفاظ میں منقول ہے، لیکن اس روایت میں فیقول یا ابن ادم ما یصر ینی منک سے آخر تک کے الفاظ تو نہیں ہیں البتہ یہ الفاظ اور نقل کئے گے ہیں کہ پھر اللہ تعالیٰ اس شخص کو یاد دلائے گا اور بتائے گا کہ فلاں فلاں چیز مانگ اور جب ( وہ تمام چیزیں مانگ چکے گا اور) اس کی آرزوئیں تمام ہولیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ نہ صرف یہ تمام چیزیں ( جن کو تو نے خواہش و آرزو کی ہے) بلکہ ان کی دس گنی اور چیزیں بھی تجھے عطا کی جاتی ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا! اس کے بعد وہ شخص جنت میں اپنے گھر میں داخل ہوگا، وہاں اس کے پاس حورعین میں سے اس کی دو بیویاں آئیں گی اور کہیں گی کہ تمام تعریف اللہ بزرگ و برتر کے لئے ہے جس نے ( اس عالیشان محل میں کہ جہاں عیش و راحت جاودانی کے سوا نہ کوئی غم وفکر ہے اور نہ موت کا خوف، تمہیں ہمارے لئے اور ہمیں تمہارے لئے پیدا کیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا! وہ شخص ( فرط خوشی سے) کہے گا کہ ( یہاں سب سے زیادہ خوش نصیب میں ہی ہوں کیونکہ) جتنا مجھے عطا کیا گیا ہے اتنا کسی اور کو نہیں دیا گیا ( یہ بات وہ اس بناء پر کہے گا کہ اس وقت تک اسے دوسروں کو حاصل ہونے والی نعمتوں کا علم ہی نہیں ہوگا۔ وہ یہی سمجھے گا کہ یہاں سب سے زیادہ نوازا جانے والا بندہ بس میں ہی ہوں۔

تشریح
اللہ کی قسم مجھے میرے پروردگار نے وہ چیز عطا کی ہے۔۔ الخ۔ اس موقع پر اس شخص کا قسم کھانا اور یہ بات کہنا دراصل اس کے اندر بدرجہ غایت امنڈ آنے والی خوشی ومسرت کا غماز ہوگا، کیونکہ اس وقت وہ اسی چیز کو سب سے بڑی نعمت جانے گا کہ دوزخ کی آگ سے باہر آنے کا موقع مل گیا اور پھر ہوسکتا ہے کہ وہ دوزخ سے نکلنے کے وقت کسی اور کو اپنے ساتھ نہ دیکھے اور یہ نہ جانے کہ کتنی زیادہ مخلوق جنت کی نعمتوں اور وہاں کے عیش و راحت میں ہے، اس لئے وہ یہی سمجھے گا کہ اس وقت میرے پروردگار نے دوزخ سے باہر لانے کی صورت میں مجھے جو نعمت عطا کی ہے اتنی بڑی نعمت اس نے اگلے پچھلے لوگوں میں سے کسی کو عطا نہیں کی۔ اس شخص کو یہ کہنے پر کہ پروردگار! کہیں آپ مجھ سے مذاق تو نہیں کررہے ہیں۔۔ الخ۔ حق تعالیٰ کے ہنسنے سے مراد بندے سے اس کا بہت زیادہ خوش ہونا ہے اور اس بات کو بیان کرنے کے بعد آنحضرت ﷺ کا ہنسنا اس عجب و سرور کی بنا پر تھا جو ایک گناہ گار بندے پر اللہ تعالیٰ کے کمال لطف و مہربانی کو دیکھ کر آپ ﷺ کے اندر پیدا ہوا تھا، رہی حضرت ابن مسعود کی بات تو وہ بیان حدیث کے وقت ان الفاظ پر پہنچ کر آنحضرت ﷺ کی اتباع میں اور خود اپنی بھی مسرت کے اظہار کے لئے ہنسے۔ وہاں اس کے پاس حور عین میں سے اس کی دو بیویاں آئیں گی حور اصل میں حوراء کی جمع ہے جس سے گورے رنگ اور حسین چہرے والی عورت مراد ہوتی ہے عین اصل میں عیناء کی جمع ہے جو بڑی اور کالی آنکھ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
Top