مشکوٰۃ المصابیح - حوض اور شفاعت کا بیان - حدیث نمبر 5500
عن ثوبان عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : حوضي من عدن إلى عمان البلقاء ماؤه أشد بياضا من اللبن وأحلى من العسل وأكوابه عدد نجوم السماء من شرب منه شربة لم يظمأ بعدها أبدا أول الناس ورودا فقراء المهاجرين الشعث رؤوسا الدنس ثيابا الذين لا ينكحون المتنعمات ولا يفتح لهم السدد . رواه أحمد والترمذي وابن ماجه . وقال الترمذي : هذا حديث غريب
حوض کو ثر پر سب سے پہلے آنے والے فقراء مہاجرین ہوں گے
حضرت ثوبان نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا میرے حوض کوثر کی لمبائی عدن بلقاء کے درمیانی فاصلہ کے بقدر ہے، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے، اس کے آب خورے ( پانی پینے کے برتن) آسمان کے ستاروں سے زیادہ ہیں۔ جو شخص بھی ایک مرتبہ اس کا پانی پی لے گا پھر اس کو کبھی پیاس نہیں لگے گی، اس حوض پر پانی پینے کے لئے سب سے پہلے آنے والے لوگ فقراء مہاجرین ہوں گے، وہی فقراء مہاجرین جو ( اس دنیا میں اپنے فقر و افلاس کی وجہ سے) پراگندہ بال اور پریشان حال اور پھٹے پرانے حال اور پھٹے پرانے کپڑوں میں نظر آتے ہیں جو خوشحال گھرانوں کی لڑکیوں سے ( اگر اپنے نکاح کا پیغام بھیجیں تو ان سے) نکاح کے قابل نہیں سمجھے جاتے اور جن کے لئے ( گھروں کے) دروازے نہیں کھولے جاتے۔ اس روایت کو احمد، ترمذی نے روایت کیا ہے اور ابن ماجہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
جیسا کہ پہلے بھی اسی طرح کی ایک حدیث کی تشریح میں گزر چکا ہے، عدن ایک چھوٹے جزیرہ نما کا نام ہے جو پہلے یمن کی بندرگاہ تھا کچھ عرصہ پہلے تک اس جزیرہ پر انگریزوں کا قبضہ رہا ہے مگر اب خود مختار ریاست کی حیثیت رکھتا ہے، عدن بحر احمر کے جنوبی سرے پر واقع ہے۔ جہاں خلیج عدن، بحر احمر اور بحیرہ عرب ( بحر ہند) کو ملاتی ہے۔ اسی طرح عمان بھی ایک شہر کا نام ہے جو بحر احمر کے شمالی سرے پر پہلے ملک شام کا ایک حصہ تھا اور اب ملک اردن کا دار السلطنت ہے۔ بلقاء اصل میں ایک قدیم شہر کا نام ہے جو کبھی ملک شام کے دار السلطنت ومشق کے قرب و جوار میں آباد تھا۔ اور عمان اسی شہر کے بلقاء سے متعلق ایک دیہاتی علاقہ تھا، اسی بناء پر حدیث میں عمان بلقاء فرمایا گیا ہے! حاصل یہ کہ آخرت میں مجھے جو حوض کوثر عطا ہوگا اس کی لمبائی کا فاصلہ اتنا ہی ہے جتنا فاصلہ عمان بلقاء اور عدن کے درمیان ہے ( موجودہ دور میں اس فاصلہ کو پورے بحر احمر کی لمبائی پر قیاس کیا جاتا ہے کہ حوض کوثر، بحر احمر جتنا لمبا ہوگا) اور یہ بات بھی پہلے بیان کی جا چکی ہے کہ حوض کوثر کی وسعت بیان کرنے کے لئے مختلف حدیثوں میں مختلف شہروں اور علاقوں کے درمیانی فاصلہ کا ذکر کیا گیا ہے مثلا اس حدیث میں عدن اور عمان بلقاء کے درمیانی فاصلہ کا ذکر ہے، ایک حدیث میں یہ ہے کہ حوض کوثر کی لمبائی ایلہ ( ایلات) اور صنعا، ( یمن) کے درمانی فاصلہ کے بقدر ہوگی اور ایک حدیث میں دو مہینے کی مسافت کے بقد ر فاصلہ کا ذکر ہے وغیرہ وغیرہ تو حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی حدیث میں حوض کی وسعت و زیادتی کو ظاہر کرنا ہے، پس جس موقع پر جو مقصود نہیں ہے بلکہ ان سب حدیثوں کا اصل مقصد صرف حوض کے طول وعرض کی وسعت وزیادت کو ظاہر کرنا ہے، پس جس موقع پر جو مخاطب وسامع جن علاقوں و شہروں کے درمیانی فاصلوں اور جس مسافت کی سمجھ اور معلومات رکھتا تھا اسی کے مطابق تمثیل کے طور پر شہروں اور علاقوں اور مسافت کا ذکر فرمایا۔ اس حوض پر پانی پینے کے لئے سب سے پہلے آنے والے لوگ فقراء مہاجرین ہوں گے۔ فقراء مہاجرین کو یہ شرف خصوصی اس لئے حاصل ہوگا کہ دنیا میں دین کی خاطر انہوں ہی نے سب سے زیادہ بھوک پیاس کی صعوبت برداشت کی ہے سب سے زیادہ پریشانی اور تباہ حالی کا شکار یہی لوگ ہوئے ہیں، اس لئے، آخرت میں سب سے پہلے انہی لوگوں کو کوثر پر سیراب کیا جائے گا اور سب سے پہلے انہی کو وہاں خوش آمدید کہا جائے گا۔ اسی مفہوم کو ایک دوسری حدیث میں یوں بیان فرمایا گیا ہے کہ۔ اجوعکم فی الدنیا اشبعکم فی الاخرۃ۔ اور تم میں سے جو لوگ دنیا میں سب سے زیادہ بھوکے رہتے ہیں وہی آخرت میں سب سے زیادہ شکم سیر ہوں گے۔ نیز اللہ تعالیٰ جنت میں ایسے ہی لوگوں کو حکم دے گا۔ کلو واشربوا ہنیأ بما اسلفتم فی الایام الخالیۃ۔ خوب مزے سے کھاؤ اور پیوں۔ اس صورت حال کے صلہ میں جس سے تم گزشتہ ایام ( یعنی دنیاوی زندگی) میں دو چار تھے۔ واضح رہے کہ مہاجرین سے مراد وہ لوگ ہیں جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آگئے تھے اور آنحضرت ﷺ ان کے قائد تھے، نیز انہی کے حکم میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے دین کی خاطر اپنے وطن اصلی سے ہجرت اختیار کرلی اور مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ جا کر بس گئے اور اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے راحت وچین اور خوشحالی کی زندگی پر فقروافلاس کو اور شہرت وناموری پر گم نامی وگوشہ گیری کو ترجیح دے کر اختیار کیا اور رضائے الہٰی کے لئے جاہ ومال کے حصول کی جدوجہد کو ترک کرکے علم وعمل کے حصول میں منہمک ہوئے۔ اور جن لوگوں کے لئے دروازے نہیں کھولے جاتے یعنی اگر وہ لوگ بفرض محال کس ضرورت کے تحت یا بلا ضرورت ہی کسی دنیا دار کے دروازے پر جائیں تو ان کی ظاہری شکستہ حالی کی بنا پر وہ ( دنیادار) ان کو اس قابل بھی نہ سمجھے کہ اپنے یہاں گھسنے دے اور اپنے پاس آنے دے یہ گویا اس بات سے کنایہ ہے کہ یہ لوگ اپنی ظاہری حالت کی وجہ سے دنیا داروں کے یہاں کسی دعوت و ضیافت میں بلائے جانے کے قابل نہیں سمجھے جاتے اور سماجی ومجلسی تعلقات میں ان کی طرف کوئی التفات نہیں کیا جاتا۔
Top