مشکوٰۃ المصابیح - حوض اور شفاعت کا بیان - حدیث نمبر 5503
وعن أنس قا ل سألت النبي صلى الله عليه و سلم أن يشفع لي يوم القيامة فقال : أنا فاعل . قلت يا رسول الله فأين أطلبك ؟ قال اطلبني أول ما تطلبني على الصراط . قلت فإن لم ألقك على الصراط ؟ قال : فاطلبني عند الميزان قلت فإن لم ألقك عند الميزان ؟ قال : فاطلبني عند الحوض فإني لا أخطىء هذه الثلاث المواطن رواه الترمذي وقا لهذا حديث غريب
قیامت کے دن آنحضرت ﷺ کہاں کہاں ملیں گے
اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ﷺ قیامت کے دن ( عام شفاعت کے علاوہ خاص طور پر الگ سے بھی، میری شفاعت فرمائیں، آپ ﷺ نے فرمایا! اچھا شفاعت کردوں گا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! آپ ﷺ کو کہاں تلاش کروں اور آپ ﷺ مجھے کہاں ملیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا! سب سے پہلے مجھے پل صراط پر تلاش کرنا میں نے عرض کیا کہ اگر آپ ﷺ پل صراط پر نہ مل پائیں؟ فرمایا! تو پھر میزان کے پاس تلاش کرنا۔ میں نے عرض کیا کہ اگر آپ ﷺ میزان کے پاس بھی نہ ملیں؟ فرمایا! (اگر ان دونوں جگہ پر نہ مل پاؤں) تو پھر حوض پر مجھے تلاش کرنا میں ان تینوں جگہوں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔ اس حدیث کو امام ترمذی (رح) نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
حضور ﷺ کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ قیامت کے دن یہ تین موقعے اور یہ تین مقام ایسے ہوں گے جہاں لوگوں کو بہت زیادہ پریشانی اور ہولناکی سے دوچار ہونا پڑے گا اور یہی وہ مقام ہوں گے جہاں پیش آنے والے حالات ومعاملات، سفارش و شفاعت کے طلب گارہوں گے، پس میں ان تینوں جگہوں پر باری باری موجود رہوں گا، کبھی یہاں کبھی وہاں اور اس طرح میں اس دن انہیں مقامات پر لوگوں کی دیکھ بھال رکھنے اور ان کے معاملات نمٹوانے میں مصروف رہوں گا۔ اگر یہ اشکال پیدا ہو کہ یہ حدیث بظاہر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی اس حدیث کے خلاف ہے جو باب الحساب کی دوسری فصل میں گزری ہے اور جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ کیا آپ ﷺ قیامت کے دن اپنے اہل و عیال کو یاد رکھیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس دن ان تینوں موقعوں پر کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ والی حدیث غائبین پر محمول ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس دن ان تینوں موقعوں جو لوگ آپ ﷺ کے سامنے نہیں ہوں گے اور آپ ﷺ سے کوئی رابطہ قائم نہیں کریں گے آپ ﷺ از خود ان کو یاد نہیں کریں گے اور یہ حضرت انس ؓ والی حدیث حاضرین پر محمول ہے، یعنی آپ ﷺ کی امت میں جو لوگ ان موقعوں پر آپ ﷺ کی خدمت پر حاضر ہوں گے اور اپنی طرف متوجہ کریں گے تو آپ ﷺ ان کی طرف توجہ دیں گے اور ان کی خصوصی شفاعت فرمائیں گے۔ اور علامہ طیبی (رح) نے ان دونوں حدیثوں کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لئے یہ لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو مذکورہ جواب اس لئے دیا کہ وہ آپ ﷺ کی زوجہ مطہرہ تھیں اور یہ خدشہ تھا کہ کہیں وہ مخصوص حضور ﷺ کی شفاعت اور خصوصی توجہ پر اعتماد و بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جائے اور عمل و ریاضت کی طرف سے بےفکر ہوجائیں! چناچہ آپ ﷺ اپنے اہل بیت اور قرابتداروں سے یہی فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو! میں تمہارے اخروی معاملات کا ذمہ دار نہیں ہوں محض میرے اوپر اعتماد کر کے نہ بیٹھ جانا، آخرت میں تمہارا عمل ہی فائدہ پہنچائے گا، اس کے برخلاف آپ ﷺ نے حضرت انس ؓ کو یہ جواب اس لئے دیا کہ وہ ناامید نہ ہوجائیں اور انہوں نے جس قلبی تعلق و اخلاص کی بنا پر یہ درخواست کی تھی اس کا تقاضہ یہی تھا کہ انہیں جواب بھی اس طرح کے محبت وتعلق کو ظاہر کرنے والا دیا جائے۔ بہر حال یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ وہ دن اپنی ہولناکی، شدت و سختی اور زحمت ومشقت کے اعتبار سے نہایت سخت ہوگا، اگرچہ آنحضرت ﷺ کو شفاعت کا مقام حاصل ہوگا اور آپ ﷺ کا شفاعت کرنا برحق ہے لیکن اس دن نجات پانے کے لئے اس دنیا میں عملی زندگی کو سوار نے اور درست کرنے کی ضرورت بھی مسلم ہے، محض حضور ﷺ کی شفاعت پر اعتماد کافی نہیں اور صرف اعمال پر اعتماد کر کے حضور ﷺ کی شفاعت سے بےنیازی کوئی معنی نہیں رکھتی، پس آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت انس ؓ کو جو الگ الگ جواب دئیے وہ دونوں اپنی اپنی جگہ پر صحیح تھے اور ہر جواب میں مخاطب کے حال کی رعایت ملحوظ تھی۔
Top