مشکوٰۃ المصابیح - دیدار الٰہی کا بیان - حدیث نمبر 5569
وعن جابر عن النبي صلى الله عليه و سلم : بينا أهل الجنة في نعيمهم إذ سطع نور فرفعوا رؤوسهم فإذا الرب قد أشرف عليهم من فوقهم فقال : السلام عليكم يا أهل الجنة قال : وذلك قوله تعالى ( سلام قولا من رب رحيم ) قال : فينظر إليهم وينظرون إليه فلا يلتفتون إلى شيء من النعيم ما داموا ينظرون إليه حتى يحتجب عنهم ويبقى نوره وبركته عليهم في ديارهم . رواه ابن ماجه
دیدار الہٰی کی کفیت :
اور حضرت جابر ؓ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب جنتی اپنی حاصل شدہ نعمتوں سے لذت وکیف اٹھانے میں مشغول ہوں گے کہ اچانک ان کے سامنے ایک عظیم نور پھیل جائے گا وہ اس نور کو دیکھنے کے لئے اپنا سر اٹھائیں گے تو کیا دیکھیں گے کہ ان کے اوپر پروردگار جلوہ گر ہے اور پروردگار ان سے فرمائے گا کہ اہل جنت اسلام علیکم اور یہ ( یعنی اس وقت پروردگار کا جنتیوں کو سلام کرنا) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سلام قولا من رب رحیم سے ثابت ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ جنتیوں کی طرف دیکھے گا اور جنتی اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھیں گے اور وہ دیدار الہٰی میں اس قدر محو ہوں گے کہ اس وقت جنتیوں کی نعمتوں میں سے کسی چیز کی طرف توجہ و التفات نہیں کریں گے تاآنکہ پروردگار ان کی نظروں سے مخفی ہوجائے گا اور اس کا نور باقی رہ جائے گا۔

تشریح
تاآنکہ ان کی نظروں سے مخفی ہوجائے گا الخ کا مطلب یہ ہے کہ وہ جب تک چاہے گا ان کی نظروں کے سامنے خود کو جلوہ گر رکھے گا اور پھر ان کی آنکھوں کے سامنے حجاب حائل کردے گا لیکن اس کے جلوے کی نورانیت اور اس کے دیدار سے حاصل ہونے والے کیف و سرور کا خمار باقی رہے گا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ حجاب اور جنتیوں کی نظر سے پروردگار کا مخفی ہوجانا بھی اس کی طرف سے اپنے بندوں پر ایک طرح کا لطف و کرم ہی ہوگا کیونکہ پروردگار کا اہل جنت کو برابر اپنی درگاہ اور حضور وشہود میں رکھنا اور ہر وقت ان کی نظر کے سامنے جلوہ گر رہنا ایک ایسی صورت حال ہوگی جو جنتیوں کی تاب و طاقت سے باہر ہوگی، ظاہر ہے ایک دفعہ دیدار کرنے کے بعد پھر ان کو اتنے عرصہ کی ضرورت ہوگی جس میں وہ خود کو سنبھال سکیں اور اپنی اصل حالت پر واپس آجائیں تاکہ جنت کی دوسری نعمتوں سے لطف اندوز ہو کر ذات باری تعالیٰ کی تجلی کا استحقاق نئے سرے سے حاصل کرسکیں اور ہر بار دیدار الہٰی کا نیا ذوق اور نیا کیف وسرورحاصل کریں۔
Top