مشکوٰۃ المصابیح - سیدالمرسلین کے فضائل ومناقب کا بیان - حدیث نمبر 5676
وعن عطاء بن يسار قال : لقيت عبد الله بن عمرو بن العاص قلت : أخبرني عن صفة رسول الله صلى الله عليه و سلم في التوراة قال : أجل والله إنه لموصوف ببعض صفته في القرآن : ( يا أيها النبي إنا أرسلناك شاهدا ومبشرا ونذيرا ) وحرزا للأميين أنت بعدي ورسولي سميتك المتوكل ليس بفظ ولا غليظ ولا سخاب في الأسواق ولا يدفع بالسيئة السيئة ولكن يعفو ويغفر ولن يقبضه الله حتى يقيم به الملة العوجاء بأن يقولوا : لا إله إلا الله ويفتح بها أعينا عميا وآذانا صما وقلوبا غلفا . رواه البخاري
تورات میں آنحضرت ﷺ کے اوصاف کا ذکر :
اور حضرت عطاء ابن یسار (مشہور جلیل القدر تابعی) کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمروابن عاص کی ملاقات سے مشرف ہوا، تو ان سے عرض کیا کہ (یہودیوں کی آسمانی کتاب) تورات میں رسول کریم ﷺ جن کی جو صفات و خصوصیات ذکر ہے ان کے بارے میں مجھے کچھ بتائے! حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ ضرور بتاؤں گا، اللہ کی قسم تورات میں آنحضرت ﷺ کی ان بعض صفات و خصوصیات کا ذکر ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہیں، چناچہ (اللہ تعالیٰ نے تورات میں آپ ﷺ کی جو صفات و خصوصیات ذکر کی ہیں، ان کو اپنی زبان اور اپنے اسلوب میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ) اے نبی، ہم نے تمہیں اہل ایمان کا شاہد، اجروانعام کی خوشخبری دینے والا، عذاب و عتاب سے ڈارنے والا اور امیوں کو پناہ دینے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اے محمد ﷺ تم میرے بندے ہو ( کہ عبودیت و بندگی کا وہ مرتبہ خاص تمہیں حاصل ہے جو کسی اور کو نصیب نہیں) تم (بندوں کی طرف بھیجے جانے والے میرے خاص رسول ہیں، میں نے تمہارا نام متوکل رکھا ہے ( یعنی تمہیں توکل و اعتماد کی وہ دولت عطا کی ہے جو کسی اور کو نہیں ملی، اسی بناء پر تم اپنے تمام معاملات ومہمات میں اپنی طاقت و صلاحیت پر اعتماد کرنے کے بجائے صرف میری ذات اور میرے حکم پر بھروسہ رکھتے ہو) نہ تم بدخوہو، نہ سخت گو اور سخت دل ہو اور نہ بازاروں میں شوروغل مچانے والے ہو۔ تورات میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ) وہ (محمد) برائی کو برائی کے ساتھ دور نہیں کریں گے ( یعنی وہ اپنے ساتھ برائی کرنے والے سے انتقام نہیں لیں گے اور سزا نہیں دیں گے) بلکہ درگذر کریں گے اور (احسان پر احسان یہ کریں گے کہ) برائی کرنے والے کے لئے دعائے مغفرت کریں گے۔ اور اللہ تعالیٰ ان محمد ﷺ کی روح کو اس وقت قبض نہ کرے گا جب تک ان کہ ذریعہ کج رو اور گمراہ قوم کو راہ راست پر نہ لے آئے اس طرح کہ قوم کے لوگ اعتراف و اقرار کرلیں گے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس وقت ان کی روح قبض نہیں کی جائے گی) جب تک کہ اللہ تعالیٰ کلمہ طیبہ (لاالہ الا اللہ) کے ذریعہ اندھی آنکھوں، بہرے کانوں اور بےحس دلوں کو درست نہ کردے۔ اس روایت کو بخاری نے ( عطاء ابن یسار سے) نقل کیا ہے نیز یہی حدیث دارمی نے بھی عطاء ابن یسار ہی سے نقل کی ہے، البتہ دارمی میں عطاء ابن یسار کی یہ روایت ( عبداللہ ابن عمر و ابن عاص کے بجائے) عبداللہ ابن سلام سے منقول ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی وہ روایت ( جو آنحضرت ﷺ کے فضائل سے متعلق ہے اور) جس کی ابتداء نحن الاخرونکے الفاظ سے ہوتی ہے باب الجمعہ میں نقل کی جاچکی ہے۔

تشریح
حضرت عبداللہ ابن عمر وابن عاص نہایت عالم فاضل قاری حافظ صحابی تھے، کتابت خوب جانتے تھے، پچھلی آسمانی کتابوں تورات و انجیل پر بھی ان کی اچھی نظر تھی، حضور ﷺ ان کو اپنی احادیث لکھنے کی اجازت عطا فرمائی تھی چناچہ آپ ﷺ سے سنتے تھے لکھ لیتے تھے، اس لئے حضرت ابوہریرہ ؓ کی طرح یہ بھی کثیر الاحادیث ہیں اور بہت سے تابعین آپ سے حدیثیں نقل کرتے ہیں۔ بہرحال حضرت عبداللہ ابن عمر نے چونکہ توراۃ پڑھ رکھی تھی اور انہیں معلوم تھا کہ اس آسمانی کتاب میں ہمارے حضرت ﷺ کے بارے میں کیا کیا پیشین گوئیاں ہیں اور آپ کے کن فضائل و اوصاف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس لئے انہوں نے حضرت عطاء ابن یسار کے سوال پر بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے جو بعض اوصاف و فضائل قرآن کریم میں ذکر کئے ہیں اور جن کو ہم نے آپ ﷺ کی زندگی میں دیکھا بھی ہے وہ تورات میں بھی مذکور ہیں، پھر انہوں نے کچھ تفصیل کے ساتھ آنحضرت کے ان اوصاف و فضائل کو بیان کیا ہے جو تورات میں مذکور ہیں، نیز انہوں نے تورات میں مذکور باتوں کو بیان کرنے کے لئے تفنن عبارت کے طور پر شروع میں وہی اسلوب اختیار کیا جو قرآن میں آنحضرت ﷺ کو خطاب کیا ہے اور پھر وہ اسلوب بھی اختیار کیا جو تورات میں آنحضرت ﷺ کے متعلق پیش گوئی کا ہے۔ امیوں کو پناہ دینے والا میں امیوں سے مراد اہل عرب ہیں اور ان کو امی سے اس لئے تعبیر کیا گیا کہ ان کی اکثریت پڑھنا لکھنا نہیں جانتی تھی۔ اور یا ان کو ام القری ( یعنی اہل مکہ کی طرف منسوب کرکے امی کہا گیا۔ نیز یہاں اہل عرب کی تخصیص اس لئے ہے کہ آنحضرت ﷺ کا نسلی و وطنی تعلق انہی سے ہے اور انہی میں مبعوث فرمائے گئے، تاکہ ان کو غیر عرب کے غلبہ تسلط سے محفوظ رکھیں اور سب سے پہلے ان ہی کو ایمان و اخلاق کے ہتھیار سے مسلح کرکے ان کی حفاظت و فلاح کا سامان کریں! اور اگر (شیطانی گمراہیوں اور نفسانی آفات سے پناہ مراد لی جائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت ﷺ کا برکت وجود تمام ہی عالم کے لئے پشت پناہ ہے۔ اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ پناہ سے مراد آنحضرت ﷺ کی قوم وملت کا اس وقت تک عذاب الہٰی میں مبتلا ہونے اور تباہ وہلاک ہوجانے سے محفوظ ومامون رہنا ہے جب تک آپ ﷺ اپنی قوم وملت کے درمیان موجود ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان (مسلمانوں) پر عذاب نازل کرے اور آپ ﷺ ان میں موجود ہوں۔ اور نہ بازاروں میں شوروغل مچانے والے ہو میں بازار کی تخصیص محض اس بنا پر ہے کہ عام طور پر شور وغل اور سنجیدہ حرکتوں کی جگہ بازار ہی ہے، جہاں اچھے اچھے لوگ بھی پہنچ کر اپنی متانت وسنجیدگی کھو دیتے ہیں۔
Top