مشکوٰۃ المصابیح - سیدالمرسلین کے فضائل ومناقب کا بیان - حدیث نمبر 5680
وعن العباس أنه جاء إلى النبي صلى الله عليه و سلم فكأنه سمع شيئا فقام النبي صلى الله عليه و سلم على المنبر فقال : من أنا ؟ فقالوا : أنت رسول الله . فقال : أنا محمد بن عبد الله بن عبد المطلب إن الله خلق الخلق فجعلني في خيرهم ثم جعلهم فرقتين فجعلني في خير فرقة ثم جعلهم قبائل فجعلني في خيرهم قبيلة ثم جعله بيوتا فجعلني في خيرهم بيتا فأنا خيرهم نفسا وخيرهم بيتا . رواه الترمذي
آنحضرت ﷺ کی نسلی ونسبی فضیلت :
اور حضرت عباس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے (ایک دن) کفار کو نبی کریم ﷺ کی شان میں ہرزہ سرائی کرتے سنا تو (افسوس اور غصہ میں بھرے ہوئے آپ ﷺ کی میں آئے ( اور بتایا کہ کفار یہ بکو اس کررہے ہیں کہ اگر اللہ میاں کو مکہ ہی کے کسی شخص کو اپنا نبی اور رسول بنانا تھا تو اس شہر کے بڑے بڑے صاحب دولت و ثروت اور اونچے درجے کے سرداروں کو چھوڑ کر محمد ﷺ کا انتخاب کیوں کرتا) آنحضرت ﷺ (نے یہ سنا تو واضح کرنے کے لئے نسلی ونسبی اور خاندانی عظمت وعزت کے اعتبار سے آپ ﷺ کی شان کیا ہے اور مرتبہ نبوت پر فائز ہونے کے لئے دوسروں کے مقابلہ آپ ﷺ کی حیثیت و اہمیت کیا ہے) منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تم لوگ جانتے ہو، میں کون ہوں؟ صحابہ نے عرض کیا کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں آپ ﷺ نے فرمایا (ہاں میں اللہ کا رسول ہوں، لیکن میری نسلی ونسبی اور خاندانی عظمت کیا ہے، اس کو جاننے کے لئے سنو) میں عبداللہ بن عبد المطلب کا بیٹا محمد ﷺ ہوں اور عبد المطلب وہ ہستی ہیں جو عرب میں نہایت بزرگ ومعزز، بڑے شریف وپاکباز اور انتہائی مشہور و معروف تھے) حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق (جن و انسان) کو پیدا کیا تو مجھے اس مخلوق میں سے بہترین مخلوق (نوع انسانی) میں پیدا کیا پھر اس بہترین مخلوق (نوع انسانی) کے اللہ تعالیٰ نے دو طبقے کئے (ایک عرب دوسراعجم) اور مجھے ان دونوں طبقوں میں سے بہترین طبقہ (عرب) میں پیدا کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس بہترین طبقہ (عرب) کو قبائل در قبائل کیا (یعنی اس طبقہ کو مختلف قبیلوں اور قوموں میں تقسیم کیا) اور مجھے ان قبائل میں سے بہترین قبیلہ (قریش) میں پیدا کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس بہترین قبیلہ (قریش) کے مختلف گھرانے بنائے اور مجھے ان گھرانوں میں سے بہترین گھرانے (بنوہاشم) میں پیدا کیا، پس میں ان (تمام نوع انسانی اور تمام اہل عرب) میں ذات وحسب کے اعتبار سے بھی سب سے بہتر واعلی ہوں اور خاندان وگھرانے کے اعتبار سے بھی سب سے اونچا ہوں (ترمذی)

تشریح
حضور ﷺ نے اپنی نسلی ونسبی اور خاندانی عظمت و فضیلت کا اظہار کرکے گویا یہ واضح کیا کہ اللہ کا آخری نبی بننے اور اللہ کی آخری کتاب پانے کا سب سے زیادہ مستحق میں ہی تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکمت الہٰی اس کا لحاظ رکھتی تھی کہ مرتبہ نبوت و رسالت پر فائز ہونے والی ہستی حسب اور خاندان کے اعتبار سے بلند درجہ اور عالی حیثیت ہو لیکن انبیاء کی ذات کے لئے حسب ونسب کی عظمت و برتری کا لازم ہونا کوئی بنیادی چیز نہیں ہے، اس کا تعلق محض ان لوگوں کے خلاف اتمام حجت سے ہے جو حسب ونسب کی بڑائی اور خاندانی وجاہت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، جیسا کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت جاہل اور بیوقوف کفار کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ کی آخری کتاب قران کو نازل کیا جانا تھا اور نبوت و رسالت قائم کی جانی تھی تو اس کے لئے عرب کے بڑے سرداروں میں سے کسی کا انتخاب کیوں نہیں کیا گیا! ور نہ جہان تک نفس نبوت کا تعلق ہے وہ خود اتنا بڑا شرف ہے جس کے سامنے کسی کی بھی بڑی سے بڑی وجاہت اور عظمت بےحیثیت چیز ہے، اس کا حصول نہ حسب ونسب کی عظمت و بلندی پر موقوف ہے اور نہ کسی اور سبب و ذریعہ پر بلکہ محض اللہ کا فضل ہے کہ اس نے جس کو چاہا اس شرف و مرتبہ کے لئے منتخب فرمایا قرآن کریم میں ارشاد ہے اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ اس کو تو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کے لئے کس کو منتخب کرے ایک اور موقع پر فرمایا۔ و اللہ یختص برحمتہ من یشاء واللہ ذو الفضل العظیم۔ اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت (عنایت) کے ساتھ جس کو منظور ہوتا ہے مخصوص فرما لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل (کرنے) والے ہیں۔ وکان فضل اللہ علیک عظیما۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو (اپنی کتاب اور علم ونبوت عطا کر کے) بڑے فضل سے نوازا۔
Top