مشکوٰۃ المصابیح - آنحضرت کے اخلاق وعادات کا بیان - حدیث نمبر 5727
وعنه قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم أحسن الناس وأجود الناس وأشجع الناس ولقد فزع أهل المدينة ذات ليلة فانطلق الناس قبل الصوت فاستقبلهم النبي صلى الله عليه و سلم قد سبق الناس إلى الصوت هو يقول : لم تراعوا لم تراعوا وهو على فرس لأبي طلحة عري ما عليه سرج وفي عنقه سيف . فقال : لقد وجدته بحرا . متفق عليه
آنحضرت ﷺ کی اکملیت وجامعیت :
اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ (حسن و جمال، فضل و کمال، صفات حمیدہ اور اخلاق فاضلہ میں) تمام لوگوں سے بڑھ کر تھے، تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور تمام لوگوں سے زیادہ دلیروبہادر تھے، ایک رات کا واقعہ ہے کہ مدینہ کے لوگ (کسی سمت سے چور وڈاکو یا کسی دشمن کی آواز سن کر) مضطرب وخوف زدہ ہوگئے (اور ایک دوسرے کو آوازیں دینے لگے) پھر (کچھ لوگ) (جمع ہو کر) اس آواز کی سمت گئے، وہاں انہوں نے اپنے سامنے نبی کریم ﷺ کو موجود پایا، حقیقت یہ ہے آنحضرت ﷺ سب سے پہلے (گھر سے نکل کھڑے ہوئے تھے اور تن تنہا، اس آواز کی سمت روانہ ہوگئے تھے آپ ﷺ نے ان سب لوگوں کو اطمینان دلاتے ہوئے فرمایا کہ ڈرو نہیں، کوئی خطرہ نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ اس وقت ابوطلحہ ؓ کے گھوڑے پر سوار تھے جو ننگی پیٹھ تھا، اس پر زین نہیں تھی نیز آپ ﷺ کی گردن میں تلوار بھی تھی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا میں نے تو اس گھوڑے کو دریا کی طرح تیز رو پایا۔ ( بخاری ومسلم )

تشریح
ایک روایت میں یہ وضاحت بھی ہے کہ گھوڑا بہت سست رفتار، تنگ قدم اور سرکش تھا، لیکن اس دن کے بعد سے وہ گھوڑا ایسا تیز رفتار ہوا کہ کوئی گھوڑا اس کے آگے نہیں نکل پاتا تھا پس یہ آنحضرت ﷺ کے معجزات میں سے ہے کہ اس گھوڑے کی حالت آپ ﷺ کی ذرا سی دیر کی سواری سے اس طرح بدل گئی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی طرف سے دشمن وغیرہ کی کوئی آہٹ محسوس ہو تو صورت حال کی تحقیق کے لئے سبقت کرنا اور اس طرف تن تنہا روانہ ہوجانا دلیری بھی ہے اور مستحب بھی بشرطیکہ ہلاکت میں نہ پڑنے کا یقین ہو، اس طرح اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عاریتا مانگنا اور مستعار گھوڑے (یا کسی بھی سواری) پر جہاد کرنا جائز ہے نیز تلوار کا گردن میں لٹکانا مستحب ہے، یہ بھی اس حدیث سے معلوم ہوا،
Top