مشکوٰۃ المصابیح - معراج کا بیان - حدیث نمبر 5790
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لقد رأيتني في الحجر وقريش تسألني عن مسراي فسألتني عن أشياء من بيت المقدس لم أثبتها فكربت كربا ما كربت مثله فرفعه الله لي أنظر إليه ما يسألوني عن شيء إلا أنبأتهم وقد رأيتني في جماعة من الأنبياء فإذا موسى قائم يصلي . فإذا رجل ضرب جعد كأنه أزد شنوءة وإذا عيسى قائم يصلي أقرب الناس به شبها عروة بن مسعود الثقفي فإذا إبراهيم قائم يصلي أشبه الناس به صاحبكم - يعني نفسه - فحانت الصلاة فأممتهم فلما فرغت من الصلاة قال لي قائل : يا محمد هذا مالك خازن النار فسلم عليه فالتفت إليه فبدأني بالسلام . رواه مسلم وهذا الباب خال عن : الفصل الثاني
قریش کے سوالات پر بیت المقدس آنحضرت ﷺ کی سامنے لایا گیا
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں نے اپنے آپ کو حجر ( حطیم) میں دیکھا، اس حال میں کہ ( میں کھڑا تھا) اور قریش مکہ مجھ سے میرے شب معراج کے سفر کے بارے میں سوالات کر رہے تھے اور بیت المقدس کی وہ چیزیں اور نشانیاں دریافت کر رہے تھے جو مجھ کو اس وقت یاد نہیں رہی تھیں۔ اس بات سے ( کہ قریش کی پوچھی ہوئی باتوں کا جواب نہ دے پایا تو یہ سب لوگ میرے بیت المقدس کے سفر اور معراج کے واقعہ کو ایک جھوٹا دعویٰ سمجھیں گے، میں اتنا سخت پریشان اور غمگین ہوگیا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا پریشان اور غمگین نہیں ہوا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی اور، بیت المقدس کو بلند کردیا جو میری نظروں کے سامنے آگیا ( یعنی قادر مطلق نے میرے اور بیت المقدس کے درمیان سارے فاصلے سمیٹ دئیے اور سارے حجابات اٹھا دئیے، جس سے بیت المقدس کی پوری عمارت اپنے گرد وپیش کے ساتھ میری نظروں کے سامنے آگئی اور میں اس قابل ہوگیا کہ قریش مکہ بیت المقدس کی جس چیز اور علامت کے بارے میں پوچھیں، میں اس کو دیکھ دیکھ کر بتاتا رہوں) چناچہ وہ مجھ سے ( بیت المقدس کے بارے میں) جو کچھ پوچھتے میں ان کو ( سامنے دیکھ کر بتادیتا ) اور یہ حقیقت ہے کہ ( اسراء و معراج کی رات میں) میں نے اپنے آپ کو انبیاء (علیہم السلام) کے درمیان دیکھا، میں نے ( اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا جو کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک میانہ قد مرد نظر آئے جیسے وہ ( قبیلہ) شنوہ سے تعلق رکھنے والے شخص عروہ ابن مسعود ؓ ثقفی ہیں، پھر میں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی دیکھا جو کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ ان سے سب سے زیادہ مشابہت جو شخص رکھتا ہے وہ تمہارا دوست ہے، (تمہارے دوست سے) آنحضرت ﷺ کی مراد خود اپنی ذات تھی۔ پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ) جب نماز کا وقت آیا تو میں ان سب ( انبیاء علیہم السلام) کا امام بنا اور جب میں نماز سے فارغ ہوا تو ( آسمان پر جانے سے پہلے یا آسمان پر پہنچنے اور بارگاہ رب العزت میں حاضری کے بعد) ایک کہنے والے نے مخاطب کر کے کہا محمد ﷺ! یہ دوزخ کا داروغہ موجود ہے ( اپنے پروردگار کی قہاریت کی تعظیم کے لئے یا جیسا کہ ابرار و صالحین کے آداب میں سے ہے از راہ تواضع و انکساری، اس کو سلام کرو! چناچہ میں ( سلام کرنے کے لئے) اس ( داروغہ دوزخ) کی طرف متوجہ ہوا، لیکن سلام میں پہل اسی نے کی۔ ( مسلم)

تشریح
میں نے اپنے آپ کو انبیاء (علیہم السلام) کے درمیان دیکھا۔ یہ آپ ﷺ نے اس وقت کا ذکر کیا ہے جب شب معراج میں آپ ﷺ مکہ سے روانہ ہوئے اور آسمانوں پر جانے سے پہلے بیت المقدس میں تشریف لائے۔ لہٰذا علماء ومحققین کا متفقہ قول ہے کہ یہ دیکھنا اس دیکھنے کے علاوہ ہے جو آسمانوں میں تھا۔ مطلب یہ کہ ایک دفعہ تو آپ ﷺ نے انبیاء کرام (علیہم السلام) کو مسجد اقصیٰ میں اس وقت دیکھا جب آپ ﷺ آسمانوں پر جانے سے پہلے بیت المقدس میں تشریف لائے اور دوبارہ ان انبیاء (علیہم السلام) کو آسمانوں میں دیکھا اور ان سے ملاقات کی۔ نیز بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ان انبیاء (علیہم السلام) کو آسمانوں میں دیکھنا ان کو روحوں کے دیکھنے پر محمول ہے یعنی وہ انبیاء (علیہم السلام) آسمانوں میں اپنے جسموں کے ساتھ موجود نہیں تھے بلکہ ان کی روحوں کو وہاں جمع کیا گیا تھا) البتہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ذات اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ ان کے بارے میں یہ ثابت ہے کہ وہ اپنے جسم کے ساتھ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور وہاں موجود ہیں، اسی طرح بعض حضرات نے حضرت ادریس (علیہ السلام) کے بارے میں بھی یہی کہا ہے۔ رہا مسجد اقصیٰ ( بیت المقدس) کا معاملہ، کہ وہاں انبیاء (علیہم السلام) کا نماز پڑھنا کس صورت پر محمول ہے؟ تو یہ بھی احتمال ہے کہ محض ان کی روحوں نے نماز پڑھی تھی اور یہ بھی احتمال ہے کہ ان کے جسموں نے اپنی روحوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ یہ دوسرا احتمال زیادہ قرین قیاس یوں ہے کہ پہلے گذر ہی چکا ہے کہ انبیاء کرام (علیہم السلام) اپنے پروردگار کے یہاں زندہ ہیں اور اللہ نے انبیاء (علیہم السلام) کے جسموں کو کھانا زمین پر حرام کیا ہے ( یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین انبیاء (علیہم السلام) کے جسم کو نہیں کھاتی اور وہ اپنی قبروں میں جوں کے توں موجود ہیں) اور چونکہ ان کے جسم وبدن عام جسموں کی طرح کثیف نہیں ہیں بلکہ روحوں کی طرح لطیف ہیں لہٰذا قادر مطلق اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سبب عالم ملک و ملکوت میں کہیں بھی ان کے حاضر وجمع ہونے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ خود حدیث کے وہ الفاظ بھی جن میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) و عیسیٰ (علیہ السلام) کے نماز پڑھنے کا ذکر ہے، اسی بات کی تائید کرتے ہیں کہ انبیاء کرام (علیہم السلام) نماز پڑھتے وقت بیت المقدس میں اپنے جسم اور روح دونوں کے ساتھ تھے، کیونکہ نماز کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ مختلف افعال جو اعضاء جسم کے ذریعہ صادر ہوں نہ کہ محض روح کے ساتھ۔ یہاں ایک اشکال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے ان انبیاء (علیہم السلام) کو مسجد اقصیٰ میں آنحضرت ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی اور پھر ان کو آنحضرت ﷺ کے استقبال و تکریم کے لئے آسمانوں پر پہنچادیا گیا ہے، یا یہ کہ مسجد اقصیٰ میں آنحضرت ﷺ کے پیچھے نماز پڑھنے کے بعد ان کی روحوں کو آسمانوں پر متشکل کردیا گیا جن سے آنحضرت ﷺ نے وہاں ملاقات فرمائی، البتہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ادریس (علیہ السلام) اپنے جسموں کے ساتھ ہی آسمانوں میں تھے۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ ان انبیاء (علیہم السلام) کو آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھانے اور ان کے ساتھ جمع ہونے کا واقعہ سدرۃ المنتہی سے واپسی کے بعد پیش آیا ہو۔ تاہم اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے، اس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے، اس نے جس طرح چاہا اپنی قدرت کا کرشمہ ظاہر کیا، اگر اولیاء اللہ کو متعدد صورتوں کے ساتھ مختلف جگہوں پر لوگ دیکھ سکتے ہیں ( جیسا کہ بعض بزرگوں کے حالات میں لکھا ہے، تو انبیاء کرام (علیہم السلام) کے ساتھ ایسی صورت پیش آنے میں کیا استبعاد ہے اور خوارق عادات ( یعنی معجزوں اور کرشموں) کا مطلب بھی تو یہی ہے کہ جو چیزیں عقل و قیاس میں آنے والی نہ ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ظہور میں آئیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک میانہ قد مرد نظر آئے میں میانہ قد لفظ جعد کا ترجمہ ہے ویسے لغت میں اس لفظ کے مختلف معنی آتے ہیں جن میں سے ایک تو یہی میانہ قد ہے دوسرے ہلکا لیکن گول گٹھا ہوا مضبوط جسم، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مضبوط بدن کے آدمی تھے اور تیسرے گھونگھریالے بال، لیکن جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے، اس تیسرے کا اطلاق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر موزوں نہیں ہوگا کیونکہ دوسری روایتوں سے ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بال گھونگھریالے نہیں تھے بلکہ وہ سیدھے بال والے تھے۔ جب نماز کا وقت آیا تو میں ان سب کا امام بنا اس موقع پر ان انبیاء کرام (علیہم السلام) کا مسجد اقصی میں جمع ہونا اور نماز پڑھنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نماز دراصل مؤمن کی معراج ہے، یعنی یہی وہ عبادت ہے جو بندے کو اپنے خالق سے ملاتی ہے اور عبودیت کا سب سے بڑا مرتبہ عطا کرتی ہے کیونکہ اپنے رب کے آگے حضور اور پروردگار کے کمال قرب کی حالت اسی عبادت سے نصیب ہوتی ہے اور یہ حالت عشاق کے نزدیک سب سے بڑی لذت اور سب سے زیادہ کیف آور ہے۔ حدیث کے الفاظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان انبیاء (علیہم السلام) کو یہ نماز آسمان پر جانے سے پہلے بیت المقدس میں پڑھائی اور یہ بھی احتمال ہے کہ ان انبیاء (علیہم السلام) کے نماز پڑھنے اور آنحضرت ﷺ کی امامت کا واقعہ آسمان پر بھی پیش آیا ہو، گو حدیث کے الفاظ اس طرف اشارہ نہیں کرتے بلکہ اس واقعہ کا بیت المقدس ہی میں پیش آنا مفہوم ہوتا ہے۔ نیز یہ نماز جس کی امامت آنحضرت ﷺ نے فرمائی، یا تو نماز تحیہ تھی یا معراج کی مناسبت سے وہ مخصوص نماز تھی جو صرف اسی موقع پر پڑھی گئی۔ یہاں بھی یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ مکہ سے لے کر بیت المقدس تک اور وہاں سے آسمانوں تک معراج کا سارا واقعہ اس دنیا سے ماوراء عالم ملک و ملکوت سے تعلق رکھتا ہے اور وہ عالم عبادات و اعمال کی کوئی ذمہ داری اور مسؤلیت عائد نہیں کرتا، تو پھر انبیاء (علیہم السلام) نے نماز کیوں پڑھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو انبیاء کرام صلوات اللہ علیہم حقیقی و دنیاوی حیات کے ساتھ زندہ ہیں اور چونکہ وہ زندہ ہیں، اس لئے ہوسکتا ہے کہ انہیں نماز کی ادائیگی کا مکلف بنایا گیا ہو، دوسرے یہ کہ اس عالم میں نماز یا کسی بھی عبادت کا وجوب بیشک اٹھا ہوا ہے لیکن ان کا وجود نہیں اٹھایا گیا لیکن سلام میں پہلی اسی نے کی یعنی آنحضرت ﷺ کا دبدبہ اور شان رحمت چونکہ دوزخ کی آگ اور داروغہ دوزخ پر غالب ہے لہٰذا آپ ﷺ کے اس تفوق و برتری کی بناء پر داروغہ دوزخ نے خود بڑھ کر سلام کیا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ آسمان پر پیش آیا جیسا کہ ترجمہ کے دوران بھی اشارہ کیا گیا۔
Top