مشکوٰۃ المصابیح - حساب قصاص اور میزان کا بیان - حدیث نمبر 5463
عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ليس أحد يحاسب يوم القيامة إلا هلك . قلت أو ليس يقول الله ( فسوف يحاسب حسابا يسيرا ) فقال إنما ذلك العرض ولكن من نوقش في الحساب يهلك . متفق عليه . ( متفق عليه )
آسان حساب اور سخت حساب ؟
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن جس سے حساب لیا جائے گا وہ تباہ ہوجائے گا ( یعنی جو بھی شخص سخت حساب اور دار وگیر سے دوچار ہوگا اس کا بچ نکلنا ممکن نہیں ہوگا نیز یہاں تباہ ہونے سے مراد عذاب میں مبتلا ہونا ہے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کہتی ہیں کہ ( جب میں نے یہ آپ ﷺ کا اشاد ایک کلیہ کے طور پر سنا تو میرے ذہن میں اشکال پیدا ہوا اور اسی اشکال کو دور کرنے کے لئے) میں نے عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اہل نجات کے حق میں یہ نہیں فرمایا کہ ( فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْرًا) 84۔ الانشقاق 8) یعنی ( جس شخص کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا پس قریب ہوگا کہ اس کا حساب آسان ہو ( اور جب حساب آسان ہوگا او اس کے تباہ ہونے کے کیا معنی ہوں گے؟ ) آپ ﷺ نے ( میرے اس اشکال کو دور کرنے کے لئے) فرمایا۔ یہ آسان حساب صرف پیش کرنا اور بیان محض ہے لیکن جس سے حساب میں مناقشہ کیا جائے گا ( یعنی جس کو سخت باز پرس اور داروگیر سے گزرنا پڑے گا) اور وہ یقینا تباہ ہوگا۔ ( بخاری ومسلم)

تشریح
آسان حساب صرف پیش کرنا اور بیان محض ہے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن شریف میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ پس قریب ہوگا کہ اس کا حساب آسان ہو۔ تو آسان حساب ہونے سے مراد ہے کہ اس کے اچھے اور برے اعمال اس کو بتلا دیئے جائیں گے مثلا اس سے کہا جائے گا کہ تو نے یہ کیا ہے، وہ کیا ہے اور برے اعمال پر مواخذہ نہیں کرے گا لیکن جس شخص کے حساب میں داروگیر اور باز پرس کا دخل ہوجائے گا، اس سے ایک ایک چیز اور ہر چھوٹے بڑے عمل کے بارے میں پوچھا جائے گا اور اس پر محاسبہ ومواخذہ کی سخت کاروائی نافذ کی جائے گی تو اس شخص کا عذاب سے بچنا ممکن نہیں ہوگا پس وہ تباہ ہوجائے گا اور حقیقت میں حساب یہی ہے۔ اس بات کو ایک دوسرے نقطہ نظر سے یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ حضور ﷺ نے مذکورہ بالا حدیث میں جو کچھ فرمایا ہے وہ اس کلیہ کو ظاہر کرتا ہے کہ جو بھی شخص حساب کے مرحلہ سے گزرے گا وہ یقینا عذاب میں مبتلا ہوگا لیکن قرآن کی مذکورہ آیت میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حساب کے مرحلہ سے گزرنے والوں میں سے بعض لوگوں کو عذاب میں مبتلا نہیں کیا جائے گا اس سے گویا قرآن کی آیت اور حضور ﷺ کے مذکورہ بالا ارشاد گرامی میں بظاہر تضاد نظر آتا ہے؟ لہذا اس ظاہری تضاد کو رفع کرنے کے لئے خود حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس آیت کریمہ میں حساب سے مراد صرف عرض ہے یعنی ان لوگوں کے سامنے ( کہ جن کو نجات یافتہ قرار دینا مقصود ہوگا ان کے اعمال کی فہرست کھول کر رکھ دی جائے گی، چناچہ انہوں نے جو برے اعمال کئے ہوں گے وہ ان کا اعتراف و اقرار کریں گے اور حق تعالیٰ اپنا فضل و کرم ظاہر کرتے ہوئے ان کے ساتھ درگزر کا معاملہ فرمائے گا اس کے برخلاف حدیث میں حساب سے مراد واقعی محاسبہ ومواخذہ اور داروگیر ہے جس کو حساب میں مناقشہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس محاسبہ وداروگیر کی بنیاد اظہار عدل ہوگا۔ بزار وغیرہ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس شخص نے یہ تین اچھی باتیں ہوں گی اس سے اللہ تعالیٰ آسان حساب لے گا اور اس کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل کرے گا ( اور وہ تین اچھی باتیں یہ ہیں کہ تم اس شخص کو ( اخلاقی جسمانی اور مالی مدد پہنچاؤ جو تمہیں اپنی مدد سے محروم رکھے تم اس شخص کے ساتھ درگزر کا معاملہ کرو جو تمہارے اوپر ظلم کرے اور تم اس شخص کے ساتھ حسن سلوک کرو جو تمہارا مقاطعہ کرے۔
Top